فوجی سروس لازمی بنانے کے خلاف الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کا احتجاج
17 مئی 2013خبر رساں ادارے اے پی نے اسرائیل کے شہر یروشلم سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعرات کے دن الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے فوجیوں کی بھرتی کے مرکزی دفتر کے باہر مظاہرہ کیا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ مظاہرین کی تعداد پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان تھی۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے رابی ڈیوڈ سوکرمان نے کہا، ’’حکومت ہماری روایات کو ختم کرتے ہوئے ہمیں سیکولر بنانا چاہتی ہے لیکن کوئی ہمارا طرز زندگی نہیں بدل سکتا۔‘‘
اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران کچھ مظاہرین نے فوج کے دفتر پر پتھراؤ بھی کیا۔ پولیس کے بقول مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے اسٹن گرنیڈز کا استعمال کیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس مجوزہ قانون کے خلاف سراپا احتجاج کٹر نظریات کے حامی یہودیوں نے کوڑے کے ڈبوں کو نذر آتش بھی کیا۔
اس دوران درجن بھر مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ طبی ذرائع کے مطابق مظاہرین کی طرف سے تشدد کے نتیجے میں چھ سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے، جن میں سے دو کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔
معاشرتی دباؤ اور حکومت کا عزم
اپنے روایتی کالے لباس میں ملبوس الٹرا آرتھوڈکس یہودی مظاہرین کے بقول ان کی کمیونٹی کے لیے فوجی سروس کو لازمی بنانے سے ان کی معمول کی زندگی متاثر ہو جائے گی۔ فی الحال مذہبی بنیادوں پر بہت سے ایسے یہودیوں کے لیے فوجی سروس لازمی نہیں ہے۔
اسرائیل میں اٹھارہ برس کے بعد تمام مرد اور خواتین کو ایک مخصوص وقت کے لیے فوج کے لیے خدمات سر انجام دینا ہوتی ہیں۔ مردوں کے لیے یہ مدت تین برس جبکہ خواتین کے لیے دو برس ہے۔
اسرائیل میں لبرل اور سیکولر حلقوں کی طرف سے زور دیا جا رہا ہے کہ اس مخصوص حوالے سے ملک کی مڈل کلاس پر دباؤ کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ الٹرا آرتھوڈکس نوجوانوں کے لیے بھی فوجی سروس لازمی قرار دی جائے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی نئی اتحادی حکومت نے کہا ہے کہ وہ معاشرے کے کچھ طبقوں پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو کم کرنے کے لیے اس مخصوص کمیونٹی کے مردوں کی زیادہ تعداد کے لیے فوجی سروس کو لازمی قرار دینے کے لیے پر عزم ہے۔
اسرائیل کی آٹھ ملین کی مجموعی آبادی کا دس فیصد الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں بہت سے کوئی کام نہیں کرتے اور اپنی مذہبی تعلیم اور اپنے کنبوں کی کفالت کے لیے سرکاری مراعات پر انحصار کرتے ہیں۔
ab/ia (AP, Reuters)