فوج کو وضاحت کی ضرورت کیوں پڑی؟
19 جولائی 2018پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے دہرایا ہے کہ ملکی فوج الیکشن کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے، آئینی حدود میں رہتے ہوئے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تعاون فراہم کر رہی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور کو بریفنگ دیتے ہوئے غفور نے کہا کہ فوج سول اداروں کو مضبوط بنانے اور انہیں تعاون فراہم کرنے کی کوشش میں ہے اور ایسے تاثرات درست نہیں کہ فوج الیکشن کے عمل یا نتائج پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
کیا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بلاواسطہ نہیں بلکہ فوج بالواسطہ انتخابی عمل میں انجینیرنگ کرنے کی کوشش میں ہے؟ یہی الزام عائد کیا ہے، پاکستان کے ڈان میڈیا گروپ کے سی ای او حمید ہارون نے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی حمایت کرتے ہوئے ملکی سیاست میں مداخلت کر رہی ہے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے آزادی رائے اور میڈیا پر قدغنیں لگانے کے حوالے سے دیگر الزامات بھی عائد کیے۔
مبصرین کے مطابق زمینی طور پر ایسے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں کہ فوج پچیس جولائی کے انتخابات میں مداخلت کی کوشش میں ہے۔
حمید ہارون نے بھی کہا کہ الیکشن میں فوجی اسٹبیلشمنٹ کے براہ راست مداخلت کے ثبوت نہیں ہیں تاہم حالات و واقعات کے تجزیوں، انسانی حقوق کے اداروں کی تحقیق اور سیاسی مبصرین کے بیانات سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ انتخابی عمل پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ان کا یہ انٹرویو اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا باعث بن چکا ہے۔
اسی تناظر میں میجر جنرل آصف غفور نے وضاحت بھی پیش کی لیکن بظاہر اس صفائی میں انہوں نے اُن بنیادی الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جو دراصل عائد کیے گئے ہیں، یعنی’غیر محسوس یا خفیہ طریقے سے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش‘۔
دیکھا جائے تو ابھی تک کسی میڈیا گروپ، سیاسی مبصر یا سیاسی جماعت نے ایسا الزام عائد کیا ہی نہیں کہ ملکی فوج اس الیکشن پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہے۔