قبائلی خاتون دروپدی مرمو ممکنہ نئی بھارتی صدر
22 جون 2022بھارت کے صدر یوں تو تینوں افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہوتے ہیں لیکن یہ آئینی عہدہ بڑی حد تک علامتی ہے۔ تاہم سیاسی ماہرین کے مطابق بعض سیاسی حالات، توڑ جوڑ کی سیاست اور بھارت میں "آمرانہ جمہوریت" کے دور میں اس کا رول کافی اہم ہوجاتا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے کسی اہم عہدے کے لیے امیدوار کے نام کا اعلان کرنے میں شش و پنج برقرار رکھنے کی اپنے روایت پر عمل کرتے ہوئے بالآخر بدھ کی شام کو بھارت کے 15ویں صدر کے عہدے کے لیے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کردیا۔
اس سے قبل اپوزیشن اتحاد نے سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کو اس عہدے کے لیے اپنے امیدوار کے طور پر پیش کیا تھا۔ صدارتی انتخابات 18جولائی کو ہوں گے۔
بی جے پی نے گزشتہ مرتبہ بہار کے اس وقت کے گورنر رام ناتھ کووند کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔ اس مرتبہ اس سیاسی جماعت نے بہار سے الگ ہوکر علیحدہ ریاست بننے والے جھارکھنڈ کی سابق گورنر دروپدی مرمو کو اپنا امید وار بنایا ہے۔
پارلیمان اور اسمبلیوں میں اراکین کے لحاظ سے بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس جتنے ووٹ ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا منتخب ہونا یقینی ہے۔ وہ پہلی قبائلی اور دوسری خاتون صدر ہوں گی۔ اس سے قبل کانگریس نے اپنے دور حکومت میں پرتبھا پاٹل کو صدر بنایا تھا۔ وہ بھارت کی پہلی خاتون صدر تھیں۔
دروپدی مرمونے کیا کہا؟
صدر کے عہدے کے لیے امیدوار بنائے جانے سے ایک روز قبل 20جون کو انہوں نے اپنی 64 ویں سالگرہ منائی تھی۔
امیدوار بنائے جانے پر انہوں نے کہا، ''میں حیرت زدہ ہوں اور خوش بھی کہ مجھے عہدہ صدارت کا امیدوار بنایا گیا ہے۔ مجھے ٹی وی دیکھ کر اس کا علم ہوا۔ صدر ایک آئینی عہدہ ہے اور اگر میں اس عہدے کے لیے منتخب ہوتی ہوں تو سیاست سے اوپر اٹھ کر کام کروں گی۔ میں آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کروں گی اور فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘
دروپدی مرمو بی جے پی کی رہنما ہیں اور وہ قبائلی ہیں۔ موجودہ صدر رام ناتھ کووند بھی ہندوؤں میں 'نچلی ذات‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی تنظیم آر ایس ایس کے تمام اہم عہدوں پر بالعموم اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو ہی فائز کیا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بعض اعلیٰ ترین علامتی عہدوں پر نچلی ذات کے افراد کو فائز کرکے ہندوؤں میں پائی جانے والی ذات پات کی تفریق اور تقسیم سے عام لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کامیاب کوشش کرتی رہی ہے۔
دروپدی مرموجب جھارکھنڈ کی گورنر تھیں۔ اس وقت ریاست میں بی جے پی حکومت پر قبائلیوں پر بہت سارے مظالم ڈھانے کے الزامات عائد کیے گئے۔ بہت سارے قبائلی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا حتی کہ عمر دراز افراد کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات درج کیے گئے۔ مرمو نے اس معاملے میں کبھی بھی مداخلت نہیں کی۔
کون ہیں دروپدی مرمو؟
مرمو کا تعلق مشرقی ریاست اوڈیسہ سے ہے۔ سن 1979میں گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے وارڈ کونسلر کے طور پر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ جس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سن 2000 اور 2009 میں وہ بی جے پی کے امیدوار کے طورپر رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔ انہوں نے نائب وزیر کے طورپر ذمہ داریاں بھی سنبھالیں۔
سن 2015 میں جب انہیں جھارکھنڈ کا گورنر بنایا گیا اس سے قبل وہ اوڈیسہ میں میوربھنج ضلع میں بی جے پی کی صدر تھیں۔ وہ پہلی گورنر تھیں جنہوں نے جھارکھنڈ میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی۔
ان کی زندگی کے بارے میں بہت سی چیزیں عام نہیں ہیں۔ ان کی شادی شیام چرن مرمو سے ہوئی لیکن کم عمری میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تین بچوں میں سے دونوں بیٹے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایک بیٹے کی موت مشتبہ حالت میں ہوئی۔ ان کی ایک بیٹی حیات ہیں۔