قبائلی علاقے: مسیحی صدیوں بعد بھی بے گھر
14 مئی 2014فاٹا یعنی وفاقی کے زیر انتظام قبائلی کلاقوں میں نافذ ایف سی آر یعنی فرنٹیر کرائم ریگولیشن قانون کے تحت مسلمانوں کی طرح سکھوں اور ہندوؤں کو بھی ہر قسم کے بنیادی حقوق حاصل ہیں، لیکن تقریباً سات ہزار ارکان پر مشتمل مسیحی برادری ابھی بھی FCR قانون کے تحت شہریت کے کچھ بنیادی حقوق سے محروم چلی آ رہی ہے۔
قبائلی علاقوں میں ترقی اور امن کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے سربراہ نظام داوڑ کا کہنا ہے کہ فاٹا کے قانون کے تحت اُن مقامی لوگوں کو باشندہ قرار دیتے ہوئے ڈومیسائل بنانے کی اجازت دی جاتی ہے، جو فاٹا کے مستقل رہائشی ہوں، یہاں پران کی جائیداد ہو اور وہ ماجب خور ہوں یعنی حکومت کے ساتھ نفع اور نقصان میں شریک بھی ہو۔ اس قانون کی رُو سے عیسائی برادری کو فاٹا کے باشندوں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہندو اور سکھ تو شروع ہی سے اس خطے میں آباد چلے آ رہے ہیں جبکہ عیسائیوں کی آمد کا سلسلہ کہیں 1908ء یا پھر 1914ء میں شروع ہوا، جب یہ لوگ انگریزوں کے ساتھ پنجاب اور متحدہ ہندوستان کے دوسرے حصوں سے نقل مکانی کر کے قبائلی علاقوں میں آئے تھے، اس طرح یہ لوگ یہاں کے حقیقی باسی نہیں ہیں۔
خیبر ایجنسی کے علاقے لنڈی کوتل کے چالیس سالہ ولسن وزیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے آباؤ اجداد گزشتہ تقریباً ایک سو سال سے فاٹا میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی پیدائش بھی اسی علاقے میں ہوئی ہے لیکن ان کو ان سو سالوں میں بہت سے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہےے ولسن وزیر کے مطابق ان کے لیے کوئی مشن سکول، ہسپتال اور قبرستان نہیں ہے، اگر کوئی فوتگی ہو جائے تو میت کو دفنانے کے لیے پولیٹیکل انتظامیہ اور مقامی ملک صاحب سے تدفین کی اجازت لینا پڑتی ہے۔ مسیحی برادری کو اقلیتی فنڈ میں سے بھی کوئی حصہ نہیں ملتا کیونکہ عیسائیوں کو کبھی فاٹا کے باشندے تسلیم ہی نہیں گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت ان کو فاٹا کا ڈومیسائل جاری نہیں کرتی، تب تک وہ اس علاقے کے باسی تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔
ڈومیسائل کی کڑی شرائط کی تفصیلات بتاتے ہوئے ولسن وزیر کا کہنا تھا:”ڈومیسائل کی بنیادی شرط یہ ہے کہ متعلقہ شخص کسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو، وہ صاحبِ جائیداد بھی ہو اور ماجب خور بھی ہو، یہی وجہ ہے کہ مسیحی باشندے سو سال گزارنے اور اپنے آباؤ اجداد کے یہاں رہنے کے باوجود بھی یہاں کے ڈومیسائل نہیں لے سکتے۔“
ولسن وزیر کا کہنا ہے کہ اصل مشکل FCR کی وجہ سے ہے ورنہ علاقے کے لوگوں کا رویہ ہمیشہ سے ان کی کمیونٹی کے ساتھ مثبت رہا ہے، لیکن اس قانون کی وجہ سے ان کی کمیونٹی کے لوگ وسائل ہونے کے باوجود زمین کا ایک ٹکڑا تک نہیں خرید سکتے اور مجبوراً دوسرے لوگوں پر انحصار کر تے ہیں:”جہاں تک قبائلی ملکان کا تعلق ہے تو وہ لوگ بھی ہمارے حق میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہاں پر طویل عرصہ گزارنے کے بعد اب یہ تمہارا حق ہے کہ تمہیں یہاں کے باشندے قرار دیا جائے۔“
لنڈی کوتل کالج میں پڑھنے والے بارہویں جماعت کے طالب علم داوٴد مسیح کا کہنا ہے کہ تعلیم کے دوران اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، کئی بار اسے سکالرشپ سے محض اس بات پر روکا گیا ہے کہ وہ عیسائی برادری سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے پاس فاٹا کا ڈومیسائل نہیں ہے:’’”ہمارے مارکس اچھے بھی آجائیں تو بھی وہ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ڈومیسائل دکھاؤ، اگر ہم ان کو ریزیڈنٹ سرٹیفیکیٹ دکھائیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ڈومیسائل نہیں ہے اور پھر وہ ہمیں وہاں سے نا اہل کر دیتے ہیں۔“
داوٴد کہتا ہے کہ ’فاٹا کے لوگوں کے لیے حکومتی سطح پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے اور مختلف سرکاری نوکریوں کے لیے ایک خاص کوٹہ مقرر ہوتا ہے، جس میں ہم فاٹا کی سیٹ پر اپلائی نہیں کر سکتے اور مجبوراً اقلیتی نشست کے لیے کاغذات جمع کراتے ہیں، مرکزی حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھائےں اور عیسائی برادری کو بھی فاٹا کی دوسرے اقلیتوں کی طرح حقوق فراہم کرے‘۔
یاد رہے کہ سال 2011ء میں ایف سی آر قانون میں سابق صدر زردای کے دور حکومت میں کچھ ترامیم تو کی گئی تھیں لیکن اس مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔