قذافی کا سابق انٹیلیجنس چیف موریطانیہ سے گرفتار
18 مارچ 2012لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں ایک نیوز کانفرنس میں اس گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے سرکاری ترجمان ناصر المانی نے کہا: ’آج ہم عبداللہ السنوسی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہیں۔ اُسے نواکشوط ایئرپورٹ پر گرفتار کیا گیا ہے۔ اُس کے ساتھ ایک نوجوان بھی ہے، جو غالباً اُس کا بیٹا ہے‘۔ بتایا گیا ہے کہ السنوسی افریقی ریاست مالی کے جعلی پاسپورٹ پر سفر کر رہے تھے۔
السنوسی گزشتہ سال کے تنازعے کے سلسلے میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں دی ہیگ کی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ساتھ ساتھ لیبیا اور فرانس کو بھی مطلوب ہیں۔
صدر نکولا سارکوزی کے دفتر کا کہنا ہے کہ فرانس نے اس گرفتاری میں مدد دی ہے۔ مزید یہ کہ السنوسی کو فرانس کے حوالے کیا جائے تاکہ اُس پر نائیجر کی فضاؤں میں UTA ایئر لائن کے ایک مسافر طیارے کو بم سے اڑانے کے اُس واقعے کے سلسلے میں بھی عدالتی کارروائی کی جا سکے، جس میں 54 فرانسیسی شہری ہلاک ہوئے تھے۔ مجموعی طور پر اِس بم دھماکے میں 170 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
عبداللہ السنوسی پر 1996ء میں طرابلس کی ایک جیل میں بارہ سو سے زیادہ قیدیوں کی ہلاکت میں بھی ملوث ہونے کا الزام ہے۔ وہ قذافی حکومت کی آخری اہم شخصیت تھے، جو ابھی تک مفرور تھی۔ لیبیا کی نئی حکومت نے اصرار کیا ہے کہ السنوسی کو طرابلس کے حوالے کیا جائے، جہاں اُس کے خلاف منصفانہ عدالتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے برعکس ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ لیبیا کا عدالتی نظام ابھی ’کمزور ہے اور اس قابل نہیں ہے کہ السنوسی کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی مؤثر تحقیقات کر سکے‘۔
السنوسی کی گرفتاری پر طرابلس کی سڑکوں پر شدید جذبات دیکھنے میں آئے ہیں۔ طرابلس کے ایک رہائشی مصطفیٰ جائمہ نے کہا: ’السنوسی قذافی کا بلیک باکس ہے۔ اُس کے پاس بہت سی معلومات ہیں۔ اُس کے ہاتھ خون آلود ہیں۔ اُسے یہاں لایا جانا چاہیے اور اُس کے خلاف یہاں لیبیا میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے‘۔
دارالحکومت کے ایک اور شہری عبداللہ الموری نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’لیبیا کے عوام کے لیے یہ ایک بڑا لمحہ ہے۔ کاش اُسے یہاں گرفتار کیا جاتا‘۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل