قذافی کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہوا لیبیا
19 مئی 2015لیبیا کے متنازعہ آرمی افسر جنرل حفتر نے ایک برس پہلے مئی میں بن غازی کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ سن دو ہزار گیارہ میں بن غازی ہی وہ شہر تھا، جو لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کا مرکز بنا۔ اس دوران جنرل حفتر نو مارچ کو اس شورش زدہ ملک کے نئے فوجی سربراہ بھی بن گئے لیکن بن غازی کا مکمل کنٹرول وہ ابھی بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔
بن غازی ابھی تک تقسیم ہے اور ایک سال کے دوران وہاں کم از کم ستّرہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیبیا باڈی اکاؤنٹ ویب سائٹ کے مطابق اس لڑائی کی وجہ سے ہزاروں افراد وہاں سے نقل مکانی بھی کر چکے ہیں۔ لیبیا کی خاتون صحافی نادین الشریف کا کہنا ہے، ’’بن غازی مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ رہائشیوں کو ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے، یہاں تک کہ اسکولوں پر بھی بم گرائے جاتے ہیں۔ ایندھن کی قلت کے ساتھ ساتھ اشیائے خورد و نوش کی بھی کمی ہے۔‘‘
خلیفہ حفتر کی فورس، پولیس اہلکاروں، فوجیوں اور چند ملیشیا گروپوں پر مشتمل ہے جبکہ ان کو لیبیا کی اُس حکومت کی بھی حمایت حاصل ہے، جسے مغربی دنیا تسلیم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ لیبیا میں اس وقت دو متوازی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ جنرل حفتر کے فوجی بن غازی کے زیادہ تر حصوں پر قابض ہو چکے ہیں لیکن شہر کے مرکز اور جنوب میں اب بھی اسلام پسند ملیشیا گروپوں کی حکومت ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لیبیا کے مسلح گروپوں کے پاس اس قدر اسلحہ موجود ہے کہ وہ آئندہ کئی برسوں تک لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔
سن دو ہزار گیارہ میں مقتول معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت میں ہزاروں رضاکار جنگجوؤں کو مسلح کیا گیا تھا اور اس وقت ان گروہوں کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اُس وقت اِن باغیوں کو نہ صرف چھوٹے بلکہ بھاری ہتھیار بھی فراہم کیے گئے تھے۔
بن غازی میں خلیفہ حفتر کے خلاف شوریٰ کونسل برسر پیکار ہے۔ لیبیا کا ملیشیا گروہ فجر لیبیا بھی اس کونسل کا اتحادی ہے اور اس کونسل نے گزشتہ برس دارالحکومت طرابلس کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ بن غازی میں انصار الشریعہ گروپ بھی موجود ہے۔ امریکی حکومت اس گروپ کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے چکی ہے۔ مبینہ طور پر سن دو ہزار بارہ میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے حملے میں یہ گروپ بھی ملوث تھا۔
ان کے علاوہ بن غازی میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ گروپ بھی موجود ہے جبکہ ملک میں پائی جانے والی سیاسی تقسیم لاقانونیت اور اس افراتفری میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے۔