قصور اسکینڈل کے سلسلے میں تین پولیس اہلکاروں کا تبادلہ
12 اگست 2015مرکزی پنجاب کے ایک گاؤں حسین خان والا کا ایک معروف خاندان پانچ سال سے کم عمر بچوں کو بندوقوں، چھریوں اور کلہاڑی سے خوف زدہ کر کہ انہیں جنسی عوامل پر مجبور کر کے اُن کی ویڈیو بنایا کرتے تھا۔ یہ جرائم پیشہ افراد ان فلموں کو فروخت کر کے اور ان بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کر کے اُن سے پیسے وصول کیا کرتے تھے۔
میڈیا کی طرف سے ان گھناؤنی مجرمانہ کارروائیوں کی خبر عام ہونے پر گزشتہ ویک اینڈ پر وزیر اعظم پاکستان نے اس شرمناک اسکینڈل کی تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا۔ پاکستانی میڈیا نے ضلع قصور میں جنسی تشدد کے شکار بچوں کی طرف سے ہونے والے مظاہروں کی کوریج بھی کی۔ احتجاج کرنے والے والدین کا کہنا تھا کہ قصور ضلعے کی پولیس نے اُن کی شکایات پر کوئی کان نہیں دھرا اور نہ ہی پولیس نے اس بارے میں چھان بین کی تھی۔
دریں اثناء صوبائی پولیس کی ایک ترجمان نبیلا غضنفر نے روئٹرز کو اپنے بیان میں کہا، ’’ قصور سیکس اسکینڈل میں غفلت برتنے والے پولیس افسروں کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘‘
ڈسٹرکٹ پولیس چیف رائے بابر اور دو نائب سُپریٹنڈنٹ کا ضلعے قصور سے تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں کسی پولیس اہلکار کو شاذ و نادر ہی برطرف کیا جاتا ہے۔
جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کے والدین نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ سلوک کی شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو پولیس نے شکایات درج کرنے سے انکار کیا اور چند متاثرین کے ساتھ تو پولیس کا رویہ ایسا تھا جیسا رویہ پولیس مجرموں کے ساتھ روا رکھتی ہے۔
متاثرہ والدین کے بقول وہ چند سال پہلے جب شکایت لے کر ملزمان کے گھر گئے تو اُن کے گھر والوں نے اُنہیں مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا اور پولیس والوں نے بھی اُن کی شکایات درج کرنے کی بجائے اُن کو ڈرایا دھمکایا۔
پولیس نے اب تک قصور اسکینڈل کے سلسلے میں 14 مبینہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان کے خلاف بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے، اغوا اور اذیت رسانی کے سات مقدمات درج کیے جا چُکے ہیں۔ اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس آفیسر محمد امین نے کہا کہ مبینہ مجرموں کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کی جائے گی۔
پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اکثر و بیشتر عام نظام انصاف کو نظر انداز کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو بروئے کار لاتے ہیں۔