لاپتہ بلاگر عاصم سعید بازیابی کے بعد بیرون ملک روانہ
29 جنوری 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں ماہ کی چار تاریخ کو لاپتہ ہونے والے بلاگر عاصم سعید کے والد نے آج بروزِ اتوار بتاریخ 29 جنوری کو بتایا ہےکہ اُن کے بیٹے کو سنگا پور سے اُن کی پاکستان آمد کے دوران ریاستی اداروں کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا تاہم روئٹرز سے گفتگو میں عاصم کے والد غلام حیدر نے کسی ریاستی ادارے کا نام نہیں لیا۔
پاکستانی حکومت اور ملک کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے لاپتہ پانچ سرگرم لبرل بلاگرز میں سے کسی ایک کو بھی حراست میں لینے سے انکار کیا تھا۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج اور ریاستی اداروں نے اِس معاملے پر کوئی بھی سرکاری تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ روئٹرز کے مطابق پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ نے اتوار کے دن کی جانے والی ٹیلیفون کالز اور سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔
عاصم سعید کے والد غلام حیدر کا کہنا تھا کہ اُن کے بیٹے کو سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ کی وجہ سے اٹھایا گیا جو ملکی خفیہ اداروں کے نزدیک قابلِ اعتراض تھی۔ غلام حیدر نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ،’’ میرا بیٹا نہ تو کسی ادارے اور نہ ہی فوج اور حکومت کے خلاف ہے۔ اور وہ اسلام کے خلاف بھی نہیں۔ اُس کا رہا کر دیا جانا ہی اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خود پر عائد تمام الزامات سے بری ہو چکا ہے۔‘‘
غلام حیدر نے کہا کہ اُن کے بیٹے کو ایجنسی کی جانب سے صرف میڈیا کو انٹرویو نہ دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ غلام حیدر کے مطابق عاصم سعید سنگا پور یا جرمنی گئے ہوں گے۔ دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھی عاصم سعید کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ عاصم محفوظ ہیں۔
عاصم سعید کے ایک رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ عاصم نے اتوار کی صبح گھر والوں سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ وہ خیریت سے ہیں۔ عاصم سعید کی واپسی، لاپتہ بلاگر اور پروفیسر سلمان حیدر اور ایک دوسرے بلاگر کی واپسی کے محض ایک روز بعد ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سلمان حیدر کے علاوہ چار دیگر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور بلاگرز لاپتہ ہو گئے تھے۔ وقاص گورایا اور عاصم سعید چار جنوری کو لاہور سے لاپتہ ہوئے جب کہ احمد رضا نصیر سات جنوری کو شیخوپورہ سے غائب ہوئے۔ اس کے علاوہ لاپتہ ہو جانے والوں میں ثمر عباس بھی شامل ہیں، جو شیعہ مسلم برادری کے لیے سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ سول پروگریسیو الائنس پاکستان کے سربراہ بھی ہیں۔