لاہور میں جماعت الدعوۃ کی ’اسلامی عدالت‘: تحقیقات شروع
8 اپریل 2016خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ جماعت الدعوۃ کی طرف سے بنائی گئی ایسی مبینہ ’شرعی عدالتوں‘ کی اطلاعات کے بعد حکومتی ادارے سرگرم ہو گئے ہیں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ لاہور میں اس امدادی ادارے نے پاکستانی عدالتی نظام کے متوازی ’دارالقضاء شریعہ‘ کے نام سے اپنا ہی ایک عدالتی نظام بنایا ہوا ہے، جس سے لوگ اپنے تنازعات کے حل اور فوری انصاف کی خاطر رجوع بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق اس طرح کا کوئی بھی نظام غیر قانونی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں طالبان کی طرف سے اس طرح کا نظام پایا جاتا ہے لیکن لاہور جیسے شہر میں اس طرح کے ثالثی مراکز کے قیام کی اطلاع ایک انوکھی بات تصور کی جا رہی ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق جماعت الدعوۃ کے ترجمان یحییٰ مجاہد نے ایسے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کے امدادی ادارے نے عدلیہ کے متوازی کوئی نظام بنایا ہے۔
خبر رساں اداروں سے گفتگو میں مجاہد نے واضح کیا کہ وہ صرف ثالثی کی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات کے خاتمے کی خاطر دونوں پارٹیوں کی مکمل رضامندی کی صورت میں ہی ’دارالقضاء شریعہ‘ اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ثالثی کے لیے مذہبی اسکالر شرعی قوانین کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔
پاکستان کے اخبار ڈان نے پہلی مرتبہ اس خبر کو عام کیا تھا۔ بعد ازاں اس معاملے پر مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے نتیجے میں پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس بارے میں تحقیقات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے بتایا کہ حکومت کو اس بارے میں علم نہیں تھا کہ جماعت الدعوۃ نے ایسا کوئی نظام بنا رکھا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ حقائق جاننے کے لیے تفتیشی عمل جاری ہے۔
لاہور میں جائیداد کے بزنس سے وابستہ شہری خالد سعید نے کہا ہے کہ اسے ’دارالقضاء شریعہ‘ کی طرف سے دھمکی موصول ہوئی ہے۔ انہوں نے اے پی کو بتایا کہ اس ’اسلامی کورٹ‘ کی طرف سے موصول ہونے والے ’سمن آرڈر‘ میں تحریر تھا کہ اگر اس نے اس کی پاسداری نہ کی تو یہ کورٹ اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔ خالد سعید نے اس کورٹ سے موصول ہونے والا سمن آرڈر اے پی کو بھی روانہ کیا ہے۔ تاہم جماعت الدعوۃ کے مطابق اس ادارے کی طرف سے ایسا کوئی سمن روانہ نہیں کیا گیا۔
خالد سعید کے مطابق سمن ملنے کے باوجود وہ اس اسلامک کورٹ میں نہیں گئے کیونکہ ان کے اس تنازعے کا معاملہ ایک مقامی سول کورٹ میں پہلے سے چل رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سمن آرڈر پر ایک اسلامی جج کی مہر بھی ثبت ہے۔ خالد سیعد کے مطابق، ’’بعد ازاں مجھے ٹیلی فون کالز موصول ہونا شروع ہو گئیں کہ اسلامک کورٹ نے میرے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔ کالر نے مطالبہ کیا کہ میں دس ملین روپے کورٹ میں جمع کرا دوں۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جماعت الدعوۃ کا قیام پاکستان کے خفیہ اداروں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا، جس کا مقصد کشمیر کے متنازعہ علاقے میں کارروائیاں کرنا تھا۔ اسی جماعت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں میں بھی ملوث تھی۔ پاکستان اس جماعت کو کالعدم قرار دے چکا ہے لیکن اس کے خلاف مناسب کریک ڈاؤن ابھی تک نہیں کیا گیا۔