تاریخی اہمیت کا حامل عدیم النظیر شہر لاہور اپنے اندر مختلف ثقافتوں کو سموئے ہوئے ہے۔ خوبصورت قدیم عمارات ، باغوں کی آماجگاہیں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو مقناطیس کی مانند اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔
لیکن گزشتہ چند سالوں سے زندہ دلان لاہور کی تاریخی عمارتیں اپنی خوبصورتی اور تابناکی کھو رہی ہیں۔ ان میں سر فہرست بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، مینار پاکستان ہیں۔ وجہ سرعت سے بڑھتی ہوئی آلودگی اورسموگ ہے۔عالمی ماحولیاتی ادارے آئی کیو ائیر کی فضائی کوالٹی کی درجہ بندی کے مطابق لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بنتا جا رہا ہے۔ شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق کے انکشافات انتہائی چشم کشا ہیں کہ لاہوریوں کی عمر ہر سال 7سال کی شرح سے کم ہو رہی ہے جس ماحول میں وہ سانس لے رہے ہیں ۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت لاہور میں جس قدر سموگ اور فضائی آلودگی ہے، یہ روزانہ 30سگریٹ پینے سے انسانی جسم کو پہنچنے والے نقصان کے برابر نقصان دہ ہے۔
لاہور کے باسی خود یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ "لاہور اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ جان لیوا سموگ میں لاہوری کھل کر سانس نہیں لے سکتے، دیکھ نہیں سکتے، سونگھ نہیں سکتے۔لاہور کی سڑکوں پر بائیک چلانے والے جگہ جگہ رک کر آنکھیں دھوتے ہیں اور بعد میں آنکھوں میں اک عجیب سی جلن محسوس ہوتی ہے۔سموگ کے دوران چھتوں یا روف ٹاپ پر رکھے گئے نباتات سب سے ذیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ابھی سردی ٹھیک سے شروع نہیں ہوئی اور سوشل میڈیا پر لاہور کی گہری سموگ ٹاپ ٹرینڈ کا درجہ اختیار کر رہی ہے۔ 2015 میں جب سموگ نے شدت اختیار کی تو پہلے پہل ہمارا محکمہ موسمیات اس اچانک ہونے والی تبدیلی کو سمجھنے سے ہی قاصر رہا کہ اکتوبر، نومبر میں دھند کے ڈیرے کیوں؟ مگر اس مخمصے کا جواب ناسا کی جاری کردہ رپورٹ سے مل گیا، جس میں پاکستان اور بھارت کے متاثرہ علاقوں پر ریڈ مارکنگ کی ہوئی تھی۔
لاہور کی سموگ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اک پرانا شاخسانہ ہے جس کے تانے بانے مختلف جہتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ لاہور جو کبھی ایک قابل زکر آبادی کا شہر تھا اب ایک ہجوم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ شہر لاہور میں سموگ کی بڑی وجہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے گیسز کا اخراج، جابجا صنعتی پلانٹس اور ان سے ملحقہ سرگرمیاں شامل ہیں۔ لاہور شہر کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی تو یہ ہے کہ جہاں ہریالی تھی وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی کٹنگ کر دی گئی حتی کہ اب واہگہ بارڈر کے قریب بھی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی بھرمار ہے۔ گاڑیوں کا دھواں، شور اور اس پر سموگ نے اہلیانِ لاہور کا جینا محال کر دیا ہے۔
سموگ میں باریک ذرات کی بڑی تعداد جنہیں وولمیٹائل آرگینگ کمپاونڈز Volatile organic compounds (VOCs) کہا جاتا ہے۔ان ذرات میں صنعتوں ،گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ ,نائٹروجن آکسائیڈ کے ذرات بھی ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب سورج کی کرنیں ان گیسز اور ذرات پر پڑتی ہیں تو نتیجتاً یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ نارنجی اور بھورے رنگ کا تاثر دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی ڈراؤنی فلم کا سیٹ ترتیب دیا گیا ہو اور لاہور "زومبی سٹی" ہو۔
ماہرین کے نزدیک ائیر کوالٹی انڈیکس میں نمایاں کمی کا باعث "پرالی" جلانا بھی ہے۔ پنجاب کے کسان فصلوں کو اس لیے آگ لگاتے ہیں تاکہ ربیع کی فصل کے لیے زمین ہموار کی جا سکے۔ پہلے سے مضر قدرتی ماحول میں فصلیں جلانے سے شامل ہونے والے دھوئیں کے باعث فضائی آلودگی کا گراف بڑھ جاتا ہے۔
اگر بات کی جائے پڑوسی ملک بھارت کی تو بھارت کے شمالی حصے اور پاکستان کے بعض حصے فضائی آلودگی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے سرحد کی دونوں جانب ایک دوسرے پر لگانے کے الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے دیوالی کے موقع پر دہلی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں پٹاخوں کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے کیونکہ آتش بازی اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والی گیسوں سے فضا آلودہ ترین ہوتی جا رہی ہے۔
سب سے ذیادہ خطرناک بات تو یہ ہے کہ اس مسئلے کا کوئی معقول حل ہمارے پاس نہیں ہے اور کلائمنٹ چینج ملکی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ سکول، گھروں کی کھڑکیاں بند کر دینے ، انڈسٹریز اور تعمیراتی کام اس وقت تک روک لینے کہ جب ہوا چلے گی تو فضا کی کوالٹی بہتر ہوجائے گی، ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تحفظ ماحولیات کے قوانین کے تحت ایکشن لیا جائے، پرانی ٹیکنالوجی پر چلنے والے بھٹے بند کروائے جائیں اور زگ زیگ ٹیکنالوجی پر بھٹے منتقل کیے جائیں۔ فصلوں کی باقیات تلف کرنے والی مشینری اور سموگ ٹاور نصب کیے جائیں۔لاہور کے گردونواح میں انڈسٹریز سے بھاری مقدار میں دھویں کے اخراج کے تدارک کے لیے اگر موثر پالیسی مرتب نہ کی گئی تو اسکا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
اگر اس شہر کو بچانے کی پلاننگ نہ کی گئی تو یہ شہر کبھی بھی حکمرانوں کو معاف نہیں کرے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔