ليبيا: توانائی کے وسائل پر تنازعات مسلسل جاری
8 مئی 2014لیبیا کے باغیوں نے نئے وزیر اعظم احمد معیتیق کو مسترد کر دیا ہے۔ باغی تحریک کے سربراہ عبد ربہ البرعصی کے مطابق احمد معیتیق سے کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ غیر قانونی طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ البرعصی نے کہا کہ تیل برآمد کرنے والے دو اہم ٹرمینلز کو حکومت کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
خود کو وزير اعظم قرار دينے والے باغی تحريک کے رہنما عبد ربہ البرعصی نے حال ہی ميں طے پانے والے معاہدے کے بارے ميں کہا کہ اس پر عمل در آمد نہيں کيا گيا ہے۔ البرعصی نے طرابلس حکومت کو متنبہ کيا کہ اگر ديگر ٹرمينلز کو دوبارہ فعال بنانے سے متعلق معاہدے پر فوری عمل در آمد نہ ہوا، تو جوابی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ليبيا کے سابق وزیر اعظم عبداللہ التھينی اور باغیوں کے مابین ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس میں باغیوں کے زیر قبضہ چار ٹرمینلز کو دوبارہ کھولنے کی بات کی گئی تھی جبکہ دو ديگر قدرے چھوٹے مقامات ’ہريگا‘ اور زوئيٹينيا‘ کو حکومت کے حوالے کر ديا گيا تھا۔ فريقين نے دونوں بڑے ’راس لنوف‘ اور ايس سائڈر‘ نامی ٹرمينلز کو دوبارہ فعال بنانے کے حوالے سے مزيد بات چيت کرنے پر اتفاق کيا تھا۔
باغيوں کے رہنما نے ملکی پارليمان ميں مصر کی اسلام پسند کالعدم جماعت اخوان المسلمون اور ديگر اسلام پسندوں پر الزام عائد کيا کہ اُن ہی کے سبب معاہدے پر عمل در آمد ممکن نہيں ہو رہا۔ عبد ربہ البرعصی نے باغيوں کے ايک ٹيلی وژن چينل پر کہا، ’’سابق وزیر اعظم عبداللہ التھينی کو يہ سمجھانا پڑے گا يا کسی کو اِس کام کے ليے منتخب کرنا پڑے گا کہ معاہدے پر عمل در آمد ميں تاخير کيوں ہو رہی ہے؟‘‘
ليبيا ميں توانائی کے وسائل کے ليے يہ تنازعات اُس بڑھتے ہوئے سياسی بحران کا حصہ ہيں، جو سابق آمر معمر قذافی کے اقتدار سے عليحدگی کے تين برس بعد اب زور پکڑ رہے ہيں۔ تنازعات کی وجہ سے ليبيا کی خام تيل کی پيداوار يوميہ صرف ڈھائی لاکھ بيرل رہ گئی ہے، جو گزشتہ برس موسم گرما ميں ايک اعشاريہ چار ٹريلين بيرل يوميہ تھی۔ ملکی پارليمان رواں برس کے ليے بجٹ منظور کرنے ميں ناکام ہو گئی ہے۔ ليبيا ايک ايسا ملک ہے، جس کی آمدنی کا دارومدار خام تيل کی تجارت پر ہے۔