لیبیا، سمندر نے مہاجرین کی باقیات اگل دیں
9 اگست 2016غیر سرکاری تنظیموں اور طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ المایا کے رہائشیوں نے ساحل پر آ جانے والی ان 21 انسانی لاشوں کی باقیات کی تدفین حکام کی جانب سے کوئی اقدام نہ کرنے پر اپنی مدد آپ کے تحت ہی کر دی۔
دارالحکومت طرابلس کے مغرب میں واقع المایا کے ساحل پر پہلی بار انسانی باقیات دو اگست کو دکھائی دی تھیں۔ ورشفانا ضلع میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سول سوسائٹی ایسوسی ایشن کے مطابق دو اگست کے بعد اگلے چند روز تک مسلسل ایسی ہی انسانی باقیات ساحل پر آتی چلی گئیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ انسانی نعشیں انتہائی خراب حالت میں تھیں اور ان کی پہچان ممکن نہیں رہی تھی۔
اس تنظیم کے مطابق مقامی رہائشیوں میں خوف اور دہشت پھیل گئی تھی کہ کہیں علاقے میں کوئی متعدی بیماری نہ پھیل جائے۔ اس پر مقامی حکام کو بار بار متنبہ کیا گیا، تاہم ان کی جانب سے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا، جس کے بعد علاقے کے رہائشیوں نے خود ہی ان انسانی باقیات کی تدفین کا کام شروع کر دیا۔
لیبیا کی ریڈ کریسنٹ تنظیم کے مطابق مقامی حکام کو مطلع کیا گیا اور اپنے اسٹاف ہی کے ذریعے ان انسانی باقیات کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تنظیم کے مقامی سربراہ حسام نصر کے مطابق، ’’ہم نے مقامی حکام سے رابطے کی کوشش کی تاکہ ان لاشوں کو دفنانے کی باقاعدہ اجازت لی جا سکے، کیوں کہ یہ لاشیں تین دن سے ساحل پر موجود تھیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام کی جانب سے عدم توجہ کے باعث مقامی رہائشیوں نے بالآخر یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور ’اسلامی طریقے‘ سے ان لاشوں کی تدفین کی۔
یہ بات اہم ہے کہ سن 2011ء میں مسلح تحریک کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے لیبیا پر حکومت کرنے والے معمر قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا، جب کہ انہیں بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ مگر تب سے لیبیا داخلی طور پر خانہ جنگی اور انتشار کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتظامی کمزویوں کی وجہ سے انسانوں کے اسمگلر لیبیا ہی کے ساحلوں کو غیرقانونی تارکین وطن کو بحیرہء روم عبور کروا کر یورپ پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔