آئی ایس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
19 فروری 2015ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار میو دراگ زورچ کے بقول اسلامک اسٹیٹ کی لیبیا میں موجود شاخ کی جانب سے 21 قبطی مسیحیوں کو قتل کرنے کی وجہ سے مصر شدید غصے میں ہے۔ مصری وزیر خارجہ نے اِس واقعے کے رونما ہونے کے بعد سلامتی کونسل سے رابطہ کیا۔ دوسری جانب مصر نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت کے اُس مطالبے کی بھی حمایت کی، جس میں طرابلس حکام نے ہتھیاروں کی درآمد پر عائد پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مصر کا موقف ہے کہ جدید ہتھیاروں کی مدد سے ہی لیبیا کی حکومت ملک کے مختلف علاقے دوبارہ اپنے قبضے میں کر سکتی ہے اور اِس طرح اسلامک اسٹیٹ اور اِسی طرح کے دیگر گروپوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور مصر اِس مقصد کے حصول میں لیبیا کا ساتھ دے گا۔
میو دراگ زورچ مزید لکھتے ہیں کہ سلامتی کونسل نے مصری وزیر خارجہ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ انتشار کے شکار کسی بھی ملک کو اسلحہ دینے کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلحہ بارود غلط ہاتھوں میں بھی جا سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سلامتی کونسل سفارتی حل کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے لیبیا بیرنارڈینو لیون نے کہا کہ سلامتی کونسل اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے تنازعے کے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے تاکہ ایک ایسی متحدہ حکومت قائم ہو، جو آئی ایس کے خلاف کارروائیاں کر سکے۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ لیبیا کی اقتصادیات مسلسل تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے مشرق اور مغرب میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں، جو ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہیں۔ مغربی لیبیا میں مسلم انتہا پسند ہیں، جو وہاں کے لوگوں کی بدحالی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں آئی ایس اپنا دائرہ کار بڑھ رہی ہے اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ بے دلی یا لا پرواہی کے ساتھ اس بحران پر توجہ دے رہا ہے حالانکہ یہ براعظم اس بحران سے شدید متاثر بھی ہو رہا ہے۔ ہر ہفتے کئی سو پناہ گزین ساڑھے چھ سو کلومیٹر کا سمندری راستہ طے کرتے ہوئے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میو دراگ زورچ مزید لکھتے ہیں کہ امریکا بھی اس مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہا حالانکہ باراک اوباما بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے موضوع پر بات کرتے رہتے ہیں۔ تاہم بات جب عملی اقدام کی آتی ہے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ اوباما سے پہلے تمام امریکی صدور مشرق وسطٰی میں استحکام کے لیے سعودی عرب، مصر، کویت، اردن اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت کرتے رہے ہیں جبکہ اوباما اپنے اِن پرانے ساتھیوں سے فاصلہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کی توجہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات پر ہے کیونکہ اوباما کو شام اور عراق میں امن کے قیام کے لیے تہران کی ضرورت ہے اور یوں اپنے مختلف مفادات میں توازن برقرار رکھنے کا عمل امریکی صدر کے لیے کافی مشکل صورت اختیار کر گیا ہے۔
میو دراگ زورچ اپنے تبصرے میں مزید لکھتے ہیں کہ گو معمر قذافی ایک مطلق العنان حکمران تھےاور اپنے مخالفین کو تشدد کا بھی نشانہ بناتے تھے تاہم دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ قذافی کے دور میں لیبیا کی اقتصادی صورتحال بہتر تھی اور اس سے پڑوسی ممالک بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اُس دور میں ہزاروں مصری شہری لیبیا میں کام کر رہے تھے۔ اسی طرح قذافی کی معزولی میں پیش پیش ممالک فرانس اور برطانیہ بھی اس آمر کے ساتھ اربوں ڈالر کا کاروبار کرتے رہے ہیں تاہم اب ان میں سے کوئی بھی خوشی سے یہ نہیں چاہتا کہ اُس دور کے حقائق کے بارے میں بات کی جائے۔