لیبیا میں حکمران کون، صورت حال مزید غیر واضح
15 اکتوبر 2014بن غازی سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق اس سال اگست میں ملکی دارالحکومت پر قبضہ کرنے والے مسلح گروپ نے اپنی طرف سے جس نام نہاد ملکی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا تھا، اسی ’حکومت‘ نے اب ریاستی انتظامیہ اور نیشنل آئل کمپنی کی ویب سائٹس کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
شمالی افریقی ملک لیبیا کی باقاعدہ حکومت اور قومی پارلیمان اب دارالحکومت طرابلس سے کئی سو میل کی دوری سے اپنا اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ مغربی لیبیا کے شہر مصراتہ کی وہ مسلح ملیشیا جس نے قریب دو ماہ قبل طرابلس میں ملکی وزارتوں کی عمارات کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اب ریاستی دارالحکومت میں تمام وزارتوں کی ویب سائٹس پر بھی قابض ہو چکی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس بات کو لیبیا میں موجودہ سیاسی انتشار اور حکمرانوں کی غیر واضح شناخت کی تازہ ترین مثال ہی کا نام دیا جا سکتا ہے کہ باقاعدہ طور پر تو ملکی وزیر اعظم عبداللہ الثینی ہیں جو اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ مشرقی لیبیا کے شہر البیضاء میں بیٹھ کر اپنے فرائض انجام دینے کی جدوجہد میں ہیں لیکن ملکی وزیر اعظم کی سرکاری ویب سائٹ پر ایک ایسی شخصیت کی تصویر نظر آتی ہے جس کو مصراتہ کے باغیوں نے ملکی وزیر اعظم قرار دے دیا تھا۔
طرابلس پر قابض باغیوں کے نامزد کردہ یہ ’وزیر اعظم‘ عمر الحاسی ہیں اور وزیر اعظم کی سرکاری ویب سائٹ پر ان کی تصویر کے ساتھ ساتھ ان افراد کے نام بھی دکھائی دیتے ہیں جن کا اعلان الحاسی نے اپنی حکومت کے وزراء کے طور پر کیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق لیبیا کے باغیوں کے اس گروپ نے اپنی قائم کردہ ’ملکی حکومت‘ کو نیشنل سالویشن گورنمنٹ کا نام دے رکھا ہے اور یہ انتظامیہ اب نیشنل آئل کارپوریشن کہلانے والی قومی تیل کمپنی کی ویب سائٹ پر بھی قابض ہو چکی ہے۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ اس ویب سائٹ پر ایک طرف اگر سرکاری ٹینڈرز کی پیشکشوں کی تفصیلات پڑھنے کو ملتی ہیں تو ساتھ ہی ایک ایسی شخصیت کی تصویر بھی نظر آتی ہے جسے طرابلس پر قابض مصراتہ کے مسلح باغیوں کی نام نہاد حکومت ملکی وزیر تیل قرار دیتی ہے۔
لیبیا کو باغیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی کی موت کے بعد سے مختلف ملیشیا گروپوں کے مابین خونریز لڑائی اور داخلی انتشار کا سامنا تو ہے ہی، لیکن اب لیبیا کے ہمسایہ ملکوں اور مغربی طاقتوں کے یہ خدشات شدید تر ہو گئے ہیں کہ ایک ہی ملک میں دو حریف حکومتوں کے مابین تنازعہ اتنا پھیل سکتا ہے کہ تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی رکن یہ ریاست پوری طرح ایک خونریز خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔