لیبیا میں خونریز جھڑپیں، غیر واضح صورتحال
21 اکتوبر 2012ہفتہ بیس اکتوبر کو معمر القذافی کی ہلاکت کو ایک سال مکمل ہونے پر لیبیا کے سرکاری ٹیلی وژن نے یہ خبر بھی دی کہ قذافی کا 29 سالہ بیٹا اور سابق فوجی کمانڈر خمیس قذافی بھی ان جھڑپوں میں مارا گیا ہے۔ خمیس قذافی کے بارے میں اب تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ معمر القذافی کے خلاف ہونے و الی بغاوت کے دوران ہی ہلاک ہو گیا تھا۔ لیبیا ٹی وی کے خود بھی زخمی ہونے والے ایک رپورٹر نے بتایا ہے کہ اُس نے خمیس قذافی کی لاش دیکھی ہے۔
بنی ولید کو سابق حکمران معمر القذافی کے آخری گڑھ کی سی حیثیت حاصل تھی اور گزشتہ دو ہفتوں سے زیادہ عرصے سے حکومتی فورسز نے اس کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ فوجی ترجمان کرنل علی الشیخی کے مطابق جب حکومت کی حامی فورسز نے بنی ولید میں مورچہ بند مسلح گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے اس شہر کے مرکز کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو دونوں جانب سے شدید لڑائی شروع ہو گئی۔
معمر القذافی کے سابق ترجمان موسیٰ ابراہیم کے حوالے سے بھی متضاد خبریں مل رہی ہیں۔ کل ہفتے کے روز حکومت نے اعلان کیا کہ موسیٰ ابراہیم کو بنی ولید اور طرابلس کے درمیان واقع مغربی شہر ترھونہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے اور اُسے مزید پوچھ گچھ کے لیے دارالحکومت طرابلس لے جایا جا رہا ہے۔ تاہم بعد ازاں ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ موسیٰ ابراہیم کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی جا سکتی اور یہ کہ انٹرنیٹ پر ایک آڈیو پیغام جاری ہوا ہے، جس میں موسیٰ ابراہیم نے اپنی گرفتاری کی خبروں کی تردید کی ہے۔
فیس بُک پر جاری کیے جانے والے اس پیغام میں ایک شخص نے خود کو موسیٰ ابراہیم بتاتے ہوئے مقتول حکمران معمر القذافی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ اُس کی گرفتاری کی خبریں اُن جرائم سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہیں، جن کا نشانہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی پشت پناہی میں سرگرم عمل باغیوں نے بنی ولید میں شہریوں کو بنایا ہے۔ آیا یہ آواز درحقیقت موسیٰ ابراہیم کی ہے، اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر محمد المقریف نے معمر القذافی کی 20 اکتوبر سن 2011ء کو گرفتاری اور قتل کے واقعے کے ایک سال پورا ہونے کے موقع پر یہ کہا تھا کہ ابھی لیبیا کے تمام علاقے مکمل طور پر ’آزاد‘ نہیں کروائے جا سکے ہیں۔ مزید یہ کہ مقتول حکمران کے بنی ولید میں مورچہ بند حامی اور دیگر جرائم پیشہ افراد ملک کے لیے بدستور ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اگرچہ المقریف نے، جو عملاً ملک کے صدر ہیں، یہ یقین دلایا ہے کہ یہ آپریشن بنی ولید کے عام شہریوں کے خلاف نہیں بلکہ محض جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے تاہم اس شہر میں موجود عمائدین اور کمانڈروں کو حکومت کی حامی فورسز کی غیر جانبداری پر شک ہے اور وہ ان فورسز کی ہر پیش قدمی کو روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
لیبیا میں اقوام متحدہ کے معاون مشن نے بھی اس ساری صورت حال پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے ا ور کہا ہے کہ ملک کے طویل المدتی مفاد میں اس تنازعے کا حل فوجی کارروائی کی بجائے بات چیت کے ذریعے نکالا جانا چاہیے۔
(aa/km(afp,dpa