لیبیا میں سات جولائی کے عام الیکشن سے پہلے احتجاجی مظاہرے
2 جولائی 2012
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے لیبیا کے شہر بن غازی سے اس بارے میں اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یکم جولائی اتوار کو بہت سے مسلح مظاہرین نے بن غازی میں قومی الیکشن کمیشن کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ ان مظاہرین نے کمیشن کے دفاتر سے مختلف قسم کا سامان اور کمپیوٹر وغیرہ نکال کر انہیں کمیشن کی عمارت کے سامنے آگ لگا دی۔
لیبیا میں عام الیکشن سے ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ قبل یہ مظاہرین اپنے پر تشدد احتجاج کے دوران مطالبہ کر رہے تھے کہ ملک کے مشرقی حصے کو زیادہ خود مختاری دی جائے۔ بن غازی لیبیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے اور وہاں قومی الیکشن کمیشن کے دفاتر پر حملہ کرنے والے مسلح مظاہرین کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔
یہ مظاہرین وفاقی سیاسی نظام کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ الیکشن کمیشن کے دفاتر پر ان مظاہرین کے حملے کے بعد اس ادارے کے ایک کارکن نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ان مسلح شہریوں نے کمیشن کی عمارت میں گھس کر چند دفاتر کو آگ لگا دی اور پھر بہت سا سامان عمارت کے سامنے جمع کر کے اسے نذر آتش کر دیا۔
بن غازی لیبیا کا ایک ساحلی شہر ہے۔ معمر قذافی کے چار عشروں سے بھی زائد عرصے پر محیط دور اقتدار کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کا آغاز گزشتہ برس اسی شہر سے ہوا تھا۔ بن غازی میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران کئی ایسے مسلح واقعات پیش آ چکے ہیں جو سلامتی انتظامات کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ نیشنل الیکشن کمیشن کی عمارت پر حملہ انہی واقعات میں سے ایک ہے۔
بدامنی کے ایسے واقعات کے باعث اب ماہرین کی اس تشویش میں اضافہ ہونے لگا ہے کہ لیبیا میں سات جولائی کے عام انتخابات کس حد تک آزادانہ اور محفوظ ہوں گے۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں، عام ووٹروں اور الیکشن کمیشن کے حکام نے بھی حکومت سے مطالبے کیے ہیں کہ اس الیکشن کے دوران اور اس سے پہلے سکیورٹی انتظامات میں واضح بہتری لائی جائے۔
لیبیا میں پانچ روز بعد جو عوامی رائے دہی عمل میں آئے گی، اس کے نتیجے میں ایک نئی قومی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ سیاسی امیدواروں اور سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن کے حوالے سے کافی سکیورٹی انتظامات اس لیے ضروری ہیں کہ ہر طرح کی ممکنہ خونریزی اور دھاندلی کو روکا جائے۔ اس کے علاوہ یہی وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے عوام کے ووٹ کے ذریعے کیے جانے والے سیاسی فیصلے کو زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد بنایا جا سکتا ہے۔
لیبیا میں حکمران قومی عبوری کونسل یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ دو سو ارکان پر مشتمل نئی قومی اسمبلی میں طرابلس کے علاقے سے منتخب ہونے والے ایک سو دو ارکان شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ملک کے مشرقی علاقے سے منتخب ہونے والے ارکان کی تعداد مجموعی آبادی کے تناسب سے صرف اڑتیس ہو گی۔ باقی ماندہ ارکان اسمبلی کا انتخاب دوسرے علاقوں سے کیا جائے گا۔
حکمران قومی عبوری کونسل کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے متعدد شہری حلقوں کا مطالبہ ہے کہ مشرقی لیبیا کو زیادہ خود مختاری دی جائے اور وہاں سے منتخب کیے جانے والے آئندہ ارکان قومی اسمبلی کی تعداد بھی طرابس کے علاقے سے منتخب کیے جانے والے ارکان کی تعداد کے برابر ہونی چاہیے۔
لیبیا میں ان تازہ واقعات کے بعد حکمران قومی عبوری کونسل کے ایک ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ ملک میں گزشتہ برس آنے والے انقلاب کے بعد نئے ریاستی اداروں کی بر وقت تشکیل کے لیے لازمی ہے کہ سات جولائی کے قومی الیکشن کا انعقاد مقررہ وقت پر ہو۔
ij /km / Reuters