لیبیا میں فوجی مداخلت کا کوئی منصوبہ نہیں، امریکی وزیر خارجہ
3 دسمبر 2016اطالوی دارالحکومت روم سے ہفتہ تین دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جان کیری نے کہا کہ لیبیا کے دارالحکومت طرابس میں نظر آنے والی تازہ خونریزی کے بعد اس امر کی ضرورت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کہ وہاں کسی بھی بیرونی طاقت یا عسکری اتحاد کی طرف سے کسی فوجی مداخلت کے بجائے مسلح تنازعے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں کی جائیں۔
کیا ہونے والا ہے؟ امریکی اسپیشل آپریشن فورسز لیبیا میں
لیبیا ’بدترین غلطی‘ ثابت ہوا، اوباما
امریکا، لیبیا میں عسکری کارروائی پر غور کرنے لگا
امریکی وزیر خارجہ نے بحیرہ روم کے علاقے کی ریاستوں کے مستقبل کے موضوع پر روم ہی میں جمعہ دو دسمبر کو ہونے والی ایک کانفرنس کے بعد اپنے اطالوی ہم منصب پاؤلو جینٹیلونی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارا آلہء کار سفارت کاری ہے۔ ہم کسی بھی طرح کے دیگر امکانات پر غور نہیں کر رہے۔‘‘
اس موقع پر لیبیا کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کی رائے میں اس وقت کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے، جو لیبیا کے تنازعے میں اپنی عسکری حوالے سے شمولیت پر آمادہ ہو۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اسی پریس کانفرنس میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ اطالوی وزیر خارجہ پاؤلو جینٹیلونی نے لیبیا کے تنازعے کے بارے میں کہا کہ اس مسئلے سے متعلق مذاکرات کا آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
لیکن اس کے برعکس امریکی وزیر خارجہ کیری نے جینٹیلونی کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا کے تنازعے کے حل کے لیے سفارتی مذاکرات اہم پیش رفت کی وجہ بنے ہیں تاہم ابھی اس سلسلے میں مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔
اطالوی حکومت کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے جان کیری نے کہا، ’’گزشتہ ایک ماہ کے دوران کی جانے والی سفارتی کوششوں کا یہ قابل ذکر نتیجہ تو نکلا ہے کہ جنرل حفتر کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کاوشیں واضح طور پر آگے بڑھی ہیں۔‘‘ جان کیری کی مراد جنرل خلیفہ حفتر سے تھی، جو لیبیا میں ایک بڑی ملٹری فورس کے کمانڈر ہیں اور جنہوں نے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ملک کی یونٹی گورنمنٹ کی حمایت کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔
اس کے برعکس خلیفہ حفتر ایک ایسی متوازی انتظامیہ کے حامی ہیں، جس کا مرکز مصر کے ساتھ سرحد کے قریب مشرقی لیبیا میں ہے اور جسے ملک میں تیل کی زیادہ تر پیداوار پر کنٹرول بھی حاصل ہے۔
2011ء میں لیبیا میں ایک عوامی انقلاب کے نتیجے میں طویل عرصے سے برسراقتدار آمر معمر قذافی کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک آج تک داخلی انتشار اور خونریزی کا شکار ہے اور اسے مختلف ملیشیا گروپوں کے ساتھ ساتھ دو ایسی حریف حکومتوں کا بھی سامنا ہے، جو آپس میں اقتدار کی کشمکش میں الجھی ہوئی ہیں۔