لیبیا میں ملیشیا گروپوں پر امریکی پابندی لگانے پر غور
7 نومبر 2014واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکام کے مطابق ممکنہ پابندیوں کا مقصد ایک طرف تو یہ ہو گا کہ لیبیا کو مکمل طور پر خانہ جنگی کی زد میں آ جانے سے بچایا جائے اور دوسری طرف مسلح ملیشیا گروپوں کے رہنماؤں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ آپس میں مذاکرات شروع کریں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ لیبیا میں معمر قذافی کے زوال کے تین سال بعد بیرونی مداخلت اس ملک میں جاری داخلی جھڑپوں میں شدت کا سبب بن رہی ہے۔ عرب ریاست قطر اور کسی حد تک ترکی ان قوتوں کی حمایت کر رہے ہیں جن کا تعلق اسلام پسندوں سے ہے۔ اس کے برعکس مصر اور متحدہ عرب امارات لیبیا کے ان سیکولر حلقوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جو اسلام پسندوں کے قریبی حلقوں کے بڑے مخالف ہیں۔
واشنگٹن حکومت ان ملیشیا گروپوں کے خلاف جن پابندیوں کی تیاریاں کر رہی ہے، وہ اُن پابندیوں سے مختلف ہوں گی جو ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے لگائی جا سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کا مقصد لیبیا میں مختلف حریف دھڑوں اور ملیشیا گروپوں کو مجبور کرنا ہو گا کہ وہ اقوام متحدہ کی مدد سے لیبیا میں آئندہ سیاسی مذاکراتی عمل میں شامل ہوں۔ لیبیا سے متعلق عالمی ادارے کی تحریک پر اس مجوزہ سیاسی مکالمت کی سربراہی اقوام متحدہ کے مندوب Bernardino Leon کریں گے۔
لیبیا کی داخلی صورتحال میں بہتری کے حوالے سے ماضی میں میڈیا میں ان امکانات کا ذکر تو کیا گیا تھا کہ شمالی افریقہ کے اس ملک میں سیاسی مذاکرات کا مقصد حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیوں کو ایک ممکنہ ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات پہلے منظر عام پر نہیں آئی تھی کہ امریکا بھی لیبیا میں متحارب مسلح گروپوں کے خلاف پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی حکام نے اس بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا کہ واشنگٹن کی طرف سے ان پابندیوں کے ساتھ کن گروپوں یا دھڑوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ واشنگٹن میں اعلیٰ ذرائع نے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ممکنہ پابندیوں کے بعد لیبیا میں مسلح گروپوں کے خلاف علیحدہ سے امریکی پابندیوں کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔
روئٹرز کے مطابق امریکی ذرائع نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ ان پابندیوں کے تحت کس طرح کے اقدامات ممکن ہوں گے۔ معمر قذافی کے زوال اور ہلاکت کے بعد سے لیبیا پچھلے تین برسوں کے دوران مسلسل بڑھتے ہوئے انتشار کا شکار رہا ہے۔ اس وقت وہاں دو دو حکومتیں اور پارلیمانی ادارے موجود ہیں اور ان کے درمیان اقتدار اور تیل سے حاصل ہونے والی دولت پر کنٹرول کی جنگ جاری ہے۔ یہ جنگ فوری طور پر ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔