لیبیا می مخالف دھڑوں کے درمیان لڑائی، اٹھارہ افراد ہلاک
1 نومبر 2014اسلام پسندوں کے ایک اتحاد فجر لیبیا کے ایک کمانڈر کا کہنا ہے کہ ان کی حریف ملیشیا زنتان نے ہفتے کو مغربی علاقے کِکلا میں علی الصبح ایک حملہ کیا۔ اس کمانڈر نے کہا کہ زنتان کا یہ حملہ بھاری گولہ باری کا ردِ عمل تھا اور اس کے حملے کے نتیجے میں چوراسی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
زنتان ملیشیا کو جنرل خلیفہ حفتر کے حامیوں کی حمایت حاصل ہے۔ اسلام پسند ملیشیا نے دو ہفتے قبل کِکلا پر قبضہ کیا تھا جس کے نتیجے میں مقامی قبائلی فوجی اس علاقے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس قصبے میں آباد تقریباﹰ تیس ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ملیشیا کے اس کمانڈر نے یہ باتیں اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتائی ہیں۔
اُدھر لیبیا کی فوج نے گزشتہ روز کہا تھا کہ خصوصی دستوں نے مشرقی شہر بن غازی میں اسلام پسندوں سے چار بیرکوں کا کنٹرول واپس لے لیا ہے۔ فوج نے بتایا تھا کہ اسے یہ کامیابی دو ہفتے کی لڑائی کے بعد ملی جس کے نتیجے میں کم از کم دو سو دس افراد ہلاک ہوئے۔
اسپیشل فورسز کے ایک کمانڈر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اب بن غازی سے نکلنے کا مشرقی راستہ اور چار کیمپ ان کی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔
لیبیا کے آمر رہنما معمر قذافی 2011ء میں بغاوت کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ وہاں تب سے ہی سیاسی عدم استحکام چلا آ رہا ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے حالات بدتر ہو چکے ہیں۔
قذافی کے زوال کے تین برس بعد وزیر اعظم عبداللہ الثنی کی حکومت اور جون میں منتخب ہونے والے پارلیمنٹ کو ان کے حریف چیلنج کر رہے ہیں جنہیں اسلام پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔
خلیفہ حفتر کو اسلام پسندوں کے مخالف سیاستدانوں، قبائل اور سفارت کاروں کی حمایت رہی ہے۔ رواں برس ان کی فورسز اور اسلام پسندوں کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں بن غازی میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ حفتر کا مؤقف رہا ہے کہ وہ بن غازی سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے 2011ء میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت کے دوران زمینی فورسز کی قیادت کی تھی۔