لیبیا کے نو منتخب وزیر اعظم کو درپیش چیلنجز
16 اکتوبر 2012کسی اہم عہدے تک پہنچنے کے لیے جس راستے پر چلنا پڑتا ہے وہ عام طور سے دشوار اور مشکل ہوتا ہے۔ خاص طور سے لیبیا کی حکومتی سربراہی تک پہنچنے کے متمنی افراد میں غیر معمولی تحمل اور دشواریوں سے گزرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ لیبیا کا سیاسی نظام کافی پیچیدہ اور مشکل ہے کیونکہ کابینہ اور وزیر اعظم دونوں کو کانگریس کی منظوری چاہیے ہوتی ہے۔ حال ہی میں مصطفیٰ ابو شغور اس تجربے سے گزرے ہیں۔ انہیں حال ہی میں عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف ہونا پڑا تھا۔ اُن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں ایسے افراد کو شامل کیا جنہیں پارلیمان کے اندر اور باہر مخالفتوں کا سامنا تھا۔ ان کی جگہ لیبیا کے سابق سفارتکار اور حکومت مخالف علی زیدان کو نئے وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا گیا۔ زیدان اعتدال پسند حلقوں میں مقبول ہیں اور یہ لیبیا کے سیکولر لیڈر مانے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے چناؤ کے لیے ان کے مد مقابل لیبیا کی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کے امیدوار محمد الحراری تھے۔ 200 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں زیدان کو 93 ووٹ ملے تھے جبکہ الحراری 85 ووٹ حاصل کر پائے۔
علی زیدان کو ذاتی طور پر پارلیمان کے سامنے خود کو قابل بھروسہ ثابت کرنا ہوگا۔ 1980ء میں معمر قذافی کی حکومت میں وہ سفیر کی حیثیت سے مقرر تھے تاہم انہوں نے قذافی حکومت سے روگردانی کر دی تھی اور تب سے وہ جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ جینیوا میں انہیں لیبیا میں انسانی حقوق کی صورتحال پر کڑی نظر رکھنے اور ایک مبصر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے پر مامور کر دیا گیا تھا۔
جرمن شہر بون کی یونیورسٹی کے پروفیسر اورعلم الارض اور بشریات کے ماہر آنڈریاس ڈٹٹمن علی زیدان کے بارے میں کہتے ہیں،’’لیبیا کے تمام سیاستدانوں کو ایک غیر معمولی تضاد کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہت زیادہ کوالیفائیڈ ہوں، ساتھ ہی یہ بھی کہ انہوں نے گزشتہ کافی سال اپنے وطن میں ہی گزارے ہوں۔ یا تو یہ سیاست دان اپنے ملک میں ہی رہے اور قذافی دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے اس لیے آج انہیں موقع پرست سمجھتے ہوئے شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ یا پھر یہ سیاستدان ایک طویل عرصے تک ملک سے دور جلا وطن رہے ہیں۔ وہ سیاستدان جو لیبیا کی سخت اپوزیشن سے تعلق رکھتے تھے وہ اب زندہ نہیں ہیں۔‘‘
لیبیا کے سیاسی امور کے ایک ماہر علی الگبیشی کا ماننا ہے کہ ان کے ملک میں نئی سیاسی ثقافت کا فروغ نہایت ضروری ہے۔ ان کے بقول،’’ اب تک ہمارے ملک میں یہ مسئلہ رہا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت نہ تو اس پوزیشن میں تھی اور نہ ہی چاہتی تھی کہ کسی قسم کی مصالیحت یا سمجھوتے سے کام لیا جائے۔ تاہم اسی کی لیبیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اب اس ملک میں سلامتی کے مسائل کا فوری طور پر مؤثر حل نکلنا چاہیے اور سابق حکومت کی طرف سے پیدا کردہ طاقت کے خلاء کو دور کیا جانا چاہیے۔‘‘
اُدھر جرمن ماہر اور بون یونیورسٹی کے پروفیسر آنڈریاس ڈٹٹمن کا کہنا ہے کہ لیبیا کے نئے وزیر اعظم کو ایک اور اہم چیلنج سے نمٹنا ہوگا اور وہ ہے اسلامی قوتوں کو مطمئن رکھنا۔
K.Kersten/J.Mahnke/km/aba