پاکستان میں ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد بڑھنے کے امکانات
30 جنوری 2022پاکستان کا شمار جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء میں تقریبا 80 کروڑ افراد ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعہ روزگار، زراعت، گلا بانی، ماہی گیری، یا جنگلات کی کٹائی سے وابستہ ہے۔ یہ تمام پیشے ماحول اور ایکو سسٹم میں بڑی تبدیلیوں کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں۔
بڑے پیمانے پر متاثر ہونے والے علاقوں سے مقامی افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور خدشہ ہے کہ 2050 ء تک جنوبی ایشیاء میں ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ جبکہ اس دوران خطے کا سالانہ خسارہ 160 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہونے والے پیشے کون سے ہیں؟
انور بلوچ ماہی گیر ہی۔ ان کا تعلق سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع مبارک گوٹھ سے ہے۔ انور نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایک برس پہلے تک وہ اور ان کے ساتھی مچھیرے ہر روز اتنا شکار کر لیتے تھے، جسے مارکیٹ میں فروخت کر کے ایک دن کے اخراجات با آسانی پورے ہو جاتے تھے۔ مگر اب وہ ایک ہفتے میں بھی اتنی مچھلیاں نہیں پکڑ پاتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے سمندری درجۂ حرارت، سمندری آلودگی اور مونگے کی چٹانوں کو سفیدی لگنے سے پاکستان کے ساحلوں پر مچھلیوں کی افزائش مناسب طور پر نہیں ہو پا رہی، جس سے ماہی گیروں کا ذریعۂ روزگار شدید متاثر ہوا ہے۔
انور بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کے کچھ پڑھے لکھے افراد ماہی گیری ترک کر کے ساحلی علاقوں میں آنے والے سیاحوں کی گائیڈنگ اور کیٹرنگ کا کام شروع کر چکے ہیں ۔مگر سیاحوں کی غیر ذمہ داری کے باعث بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ساحلوں پر سکوبا ڈائیونگ اور دیگر آبی کھیلوں کی سرگرمیاں بڑھنے سے مونگے کی چٹانوں کو سخت نقصان پہنچ رہا تھا۔ انور کے بقول،''اس کے بعد پاکستان نیوی نے چرنا، استولا اور کئی دیگر جزائر پر ایسی ٹورسٹ سرگرمیاں محدود کر دی ہیں، جن سے ہمارا روزگار جڑا ہوا تھا۔‘‘
واضح رہے کہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں 4 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری اور سیاحت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کو کل جی ڈی پی کا تقریبا 4 فیصد ان دو پیشوں سے حاصل ہوتا ہے۔
کیا ماحولیاتی تبدیلیاں خوراک کے بحران کو جنم دے رہی ہیں؟
کسی زمانے میں سندھ کے ڈیلٹائی علاقے میں 17 نہریں بہتی تھیں، جن کے ذریعے تقریبا 150 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاتا تھا۔ ماہرین کے مطابق بارشوں کی کمی کے باعث کوٹری سے نیچے دریائے سندھ کا بہاؤ اب نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے ہر برس لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں سب سے زیادہ نقل مکانی اسی سمندری پٹی سے ہوئی ہے۔
اسی علاقے کے ایک رہائشی رحیم بخش نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کسی دور میں یہ سارا علاقہ نہ صرف انتہائی زرخیز تھا بلکہ ساحلی علاقوں میں مچھلی کی اتنی فراوانی تھی کہ مقامی افراد کو کھیتی باڑی نہیں کرنی پڑتی تھی،''مگر 1999ء میں آنے والے سائیکلون اے ٹو نے اس پوری ساحلی پٹی کو برباد کر ڈالا۔ رہی سہی کسر سمندر کے آگے بڑھنے اور میٹھے پانی کی کمی نے پوری کر دی۔ یہاں سے ایسے زیادہ تر افراد جن کا ذریعۂ روزگار زراعت تھا، ہجرت کر چکے ہیں۔
رحیم بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کے جو افراد ابھی تک ڈیلٹائی علاقے میں مقیم ہیں، وہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں، بارشوں، غذائی قلت اور بے روزگاری کے باعث جلد ہی یہ علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
معروف انوائرمینٹل اکنامسٹ ڈاکٹر پرویز عامر نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا،''پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت اور صنعت و حرفت پر ہے۔ مگر دیکھا جائے تو اکثر صنعتوں کو خام مال بھی زراعت سے ہی ملتا ہے۔ لہذا ماحولیاتی تبدیلیوں سے صنعتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ کسی بھی طرح ملک کے جی ڈی پی میں اضافہ کیا جائے۔ یہاں ایسی پائیدار پالیسیوں کا فقدان ہے، جو ماحولیات اور دیگر ضروری عوامل کو مد نظر رکھ کر بنائی جائیں۔
غذائی قلت کتنی تباہ کن ہو سکتی ہے؟
فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کی ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق موسم گرما میں تیزی سے بڑھتے درجۂ حرارت کے باعث پاکستان میں گندم کی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے اور پاکستان کی کل آبادی کا 37 فیصد فی الوقت غذائی قلت کا شکار ہے۔
اس رپورٹ کے اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے گرم و مرطوب علاقوں میں 38 فیصد رقبہ ٹڈی دل کا بریڈنگ گراؤنڈ ہے۔ اگلے چند برسوں میں ٹڈی دل کے مزید حملوں سے گندم کے علاوہ دیگر زرعی اجناس کی قلت بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔
ماہرین ِمعاشیات کے مطابق اگرچہ کورونا وائرس وبا کے بعد سے فوڈ اِن سکیورٹی پر منڈلاتے سائیوں نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے مگر جنوبی ایشیاء خصوصا پاکستان میں یہ خطرات زیادہ سنگین ہیں کیونکہ اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی تیاریاں ناکافی ہیں۔
2018ء میں بنائی جانے والی نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی پر آج تک مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غذائی قلت کے شکار علاقوں میں عوام کے لیے سپورٹ پرائسس متعارف کروائی جائیں اور کسانوں کو انشورنس دی جائے تو بڑھتی ہوئی فوڈ اِن سکیورٹی پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔