مالیاتی امدادی پیکیج پر پانچ ممالک کے انحصار کا امکان
28 جون 2012مالیاتی منڈیاں تاہم غیر یقینی کا شکار ہی رہیں گی۔ اسپین اور اٹلی کے لیے قرضوں پر سود کی شرح طویل المیعاد بنیادوں پر ناقابل برداشت حد تک بلند ہو جائے گی۔ اُدھر یونان میں اگرچہ اب ایک ایسی حکومت برسرِاقتدار آئی ہے جو امداد دینے والے ممالک کے طے کردہ اصولوں پر کار بند رہنا چاہتی ہے تاہم یونانی وزیر اعظم انتونیس سماراس بہتر شرائط کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یونان ماضی میں طے پائی جانے والی متفقہ اصلاحات اور قرضوں کے وعدوں کے ضمن میں ابھی پرانی سوچ ہی رکھتا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے رواں ہفتے لکسمبرگ میں اس سلسلے میں کافی سخت مگر پر اعتماد رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا،’یورپ ایک امتحان سے گزر رہا ہے۔ ہم بحران پر قابو پانا چاہتے ہیں اور ہمیں ایسا کرنا ہو گا۔ بچت کا بحران تمام فریقوں کے مابین اعتماد کا متقاضی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ممالک جو قرضوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ اپنے وعدے بھی پورے کریں‘۔
ویسٹر ویلے نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں کسی سمجھوتے یا رعایت سے کام نہیں لیا جائے گا۔ جرمن وزیر نے رواں ہفتے اس ضمن میں ہونے والے مذاکرات کو کٹھن اور حساس قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان مسائل پر قابو پا لیا جائے گا۔
اگر تمام معاملات جرمن حکومت کی سوچ کے مطابق چلتے رہے تو سب کچھ نہایت آسانی سے ٹھیک ہو جائے گا۔ ہر ملک اپنا بجٹ ٹھیک کرے تو اُس کی مقابلے کی صلاحیت خود بخود ہی بڑھ جائے گی۔ اس ضمن میں یورو زون کے اندر جرمنی کے اتحادی موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہالینڈ، فن لینڈ اور آسٹریا اور یورو زون کے باہر سویڈن۔ تاہم باد مخالف فرانس کی طرف سے آ رہی ہے جو اب تک جرمنی کا سب سے قریبی ساتھی ملک رہا ہے۔ فرانس کے نئے سوشلسٹ صدر فرانسوا اولانڈ کی روزگار کی منڈی اور پنشن سے متعلق پالیسیاں برلن حکومت کی ان پالیسیوں سے بالکل اُلٹ ہیں۔
اُدھر اٹلی کے وزیر اعظم اور اقتصادی اور مالیاتی امور کے وزیر ماریو مونٹی، جو کہ ایک ٹیکنو کریٹ ہیں، بہت پرجوش تھے تاہم اصلاحات کے ضمن میں اُن کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک برسلز کانفرنس میں ویڈیو کے ذریعے روم سے اپنے خطاب میں مونٹی کا کہنا تھا،’جلد یا بدیر ہماری نافذ کردہ سخت مالیاتی اور سیاسی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت سامنے آئے گی۔ میرا خیال ہے کہ یورپی سطح پر استحکام کی فضا قائم کرنے میں جن ممالک نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، وہ ان فیصلوں کا ہر پہلو سے اور نہایت گہرائی میں جائزہ لیں گے‘۔
اطالوی وزیر اعظم نے اس ضمن میں جرمنی کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اس پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
H.c/Km/K.t/Aa